Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ يَابۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡيَتِىۡ وَلَا بِرَاۡسِىۡ‌ۚ اِنِّىۡ خَشِيۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَيۡنَ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِىْ‏ ﴿94﴾
ہارون ( علیہ السلام ) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ ( نہ ) فرمائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا ۔
قال يبنؤم لا تاخذ بلحيتي و لا براسي اني خشيت ان تقول فرقت بين بني اسراءيل و لم ترقب قولي
[Aaron] said, "O son of my mother, do not seize [me] by my beard or by my head. Indeed, I feared that you would say, 'You caused division among the Children of Israel, and you did not observe [or await] my word.' "
Haroon ( alh-e-salam ) ney kaha aey meray maa jaye bhai! Meri darhi na pakar aur sir kay baal na kheench mujhay to sirf yeh khayal daaman geer hua kay kahin aap yeh ( na ) farmayen kay tu ney bani israeel mein tafarqa daal diya aur meri baar ka intezar na kiya.
ہارون نے کہا : میرے ماں کے بیٹے ! میری داڑھی نہ پکڑو ، اور نہ میرا سر ۔ حقیقت میں مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم یہ کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ، اور میری بات کا پاس نہیں کیا ۔ ( ٣٩ )
کہا اے میرے ماں جائے! نہ میری ڈاڑھی پکڑو اور نہ میرے سر کے بال مجھے یہ ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا ( ف۱۳۹ )
ہارون ( علیہ السلام ) نے جواب دیا ” اے میری ماں کے بیٹے ، میری ڈاڑھی نہ پکڑ ، نہ میرے سر کے بال کھینچ ، 71 مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا ۔ ” 72
۔ ( ہارون علیہ السلام نے ) کہا: اے میری ماں کے بیٹے! آپ نہ میری داڑھی پکڑیں اور نہ میرا سر ، میں ( سختی کرنے میں ) اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں آپ یہ ( نہ ) کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان فرقہ بندی کردی ہے اور میرے قول کی نگہداشت نہیں کی
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :71 ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے ، اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :72 حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، اور اتحاد چاہے وہ شرک ہی پر کیوں نہ ہو ، افتراق سے بہتر ہے خوہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو ۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا ۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورہ اعراف کی آیت 150 کے ساتھ ملا کر پڑہنا چاہیے ۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ : اَبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ ۗ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَلٓا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی ، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تل گئے ۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے ، اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا ، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا ۔ سورہ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی ۔