Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ يَـبۡصُرُوۡا بِهٖ فَقَبَـضۡتُ قَبۡضَةً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتۡ لِىۡ نَفۡسِى‏ ﴿96﴾
اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں دکھائی نہیں دی ، تو میں نے فرستادۂ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی ۔
قال بصرت بما لم يبصروا به فقبضت قبضة من اثر الرسول فنبذتها و كذلك سولت لي نفسي
He said, "I saw what they did not see, so I took a handful [of dust] from the track of the messenger and threw it, and thus did my soul entice me."
Uss ney jawab diya kay mujhay woh cheez dikhaee di jo enhen dikhaee na di to mein ney farstada-e-elahee kay naqsh-e-qadam say aik muthi bhar li ussay iss mein daal diya issi tarah meray dil ney yeh baat meray liye bhali bana di.
وہ بولا : میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جو دوسروں کو نظر نہیں آئی تھی ۔ اس لیے میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھالی ، اور اسے ( بچھڑے پر ) ڈال دیا ۔ ( ٤٠ ) اور میرے دل نے مجھے کچھ ایسا ہی سمجھایا ۔
بولا میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا ( ف۱٤۱ ) تو ایک مٹھی بھر لی فرشتے کے نشان سے پھر اسے ڈال دیا ( ف۱٤۲ ) اور میرے جی کو یہی بھلا لگا ( ف۱٤۳ )
اس نے جواب دیا ” میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی ، پس میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اس کو ڈال دیا ۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا ۔ ” 73
اس نے کہا: میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی تھی سو میں نے اُس فرستادہ ( فرشتے ) کے نقش قدم سے ( جو آپ کے پاس آیا تھا ) ایک مٹھی ( مٹی کی ) بھر لی پھر میں نے اسے ( بچھڑے کے قالب میں ) ڈال دیا اور اسی طرح میرے نفس نے مجھے ( یہ بات ) بھلی کر دکھائی
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :73 اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے ۔ ایک گروہ جس میں قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے ، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ، اور ان کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی ، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی ۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے فی الواقع ایسا ہوا تھا ۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی ۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی ، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے ۔ دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے ۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ مجھے رسول ، یعنی حضرت موسیٰ میں ، یا ان کے دین میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی ۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اس کے نقش قدم کی پیروی کی ، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا ۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی ، پھر امام رازی نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ، اور اب طرز جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے ۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف محاورے اور روز مرہ سے واقف ہو ، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں ۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات بیان کر رہے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں اس سے مراد لیے جاتے ہوں ۔ اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہرگز اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا ۔ زباں دانی تو نہیں ہو سکتا ، البتہ سخن سازی کا کرتب ضرور مانا جا سکتا ہے ۔ اس قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود ان حضرات کی اردو تحریروں میں ، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے ، تو شاید اپنے کلام کی دو چار ہی تاویلیں سن کر یہ حضرات چیخ اٹھیں ۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اس وقت کی جاتی ہیں جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی ، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے ۔ اس طرز فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس سلسلہ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی ۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا ۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا ، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے ۔ رسول سے مراد ممکن ہے کہ جبریل ہی ہوں ، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے ۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا ، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی ۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا ، تاکہ وہ اسے اپنے نقش قدم کی مٹی کا کرشمہ سمجھ کر پھول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کرلیں ۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے ، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے ۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکارا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا ۔