Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
يَّوۡمَ يُنۡفَخُ فِى الصُّوۡرِ‌ وَنَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِيۡنَ يَوۡمَٮِٕذٍ زُرۡقًا‌ ۖ ‌ۚ‏ ﴿102﴾
جس دن صور پھونکا جائیگا اور گناہ گاروں کو ہم اس دن ( دہشت کی وجہ سے ) نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے ۔
يوم ينفخ في الصور و نحشر المجرمين يومىذ زرقا
The Day the Horn will be blown. And We will gather the criminals, that Day, blue-eyed.
Jiss din soor phonka jayega aur gunehgaron ko hum uss din ( dehshat ki waja say ) neeli peeli aankhon kay sath gher layen gay.
جس دن صور پھونکا جائے گا ، اور اس دن ہم سارے مجرموں کو گھیر کر اس طرح جمع کریں گے کہ وہ نیلے پڑے ہوں گے ۔
جس دن صور پھونکا جائے گا ( ف۱۵٤ ) اور ہم اس دن مجرموں کو ( ف۱۵۵ ) اٹھائیں گے نیلی آنکھیں ( ف۱۵٦ )
اس دن جبکہ صور پھونکا جائے گا 78 اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں ﴿دہشت کے مارے﴾ پتھرائی ہوئی ہوں گی ، 79
جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن ہم مجرموں کو یوں جمع کریں گے کہ ان کے جسم اور آنکھیں ( شدّتِ خوف اور اندھے پن کے باعث ) نیلگوں ہوں گی
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :78 صَور ، یعنی نر سنگھا ، قرناء ، یا بوق ۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہے ، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہ ان محدود معنوں میں لے لیں ، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں ۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے ملتی جلتی ہو ۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی ۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی ۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حاشیہ 106 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ زُرقاً استعمال ہوا ہے جو اَزْرَق کی جمع ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ خود اَزْرق ( سفیدی مائل نیلگوں ) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے ۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ارزق العین ( کرنجی آنکھوں والے ) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدت ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے ۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے ۔
صور کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنالیا ہے پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں؟ فرمایا کہو ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣؁ ) 3-آل عمران:173 ) ۔ اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی ۔ ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے ۔ ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دن بھی کہاں کے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے ۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی ۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اس سوال پر کہ تم کتنا عرصہ زمین پر گزار آئے؟ ان کا جواب ہے ایک دن بلکہ اس سے بھی کم ۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے ۔