Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
وَيَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ يَنۡسِفُهَا رَبِّىۡ نَسۡفًا ۙ‏ ﴿105﴾
وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں ، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا ۔
و يسلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي نسفا
And they ask you about the mountains, so say, "My Lord will blow them away with a blast.
Woh aap say paharon ki nisbat sawal kertay hain to aap keh den kay enhen mera rab raiza raiza ker kay ura dey ga.
اور لوگ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ( کہ قیامت میں ان کا کیا بنے گا؟ ) جواب میں کہہ دو کہ میرا پروردگار ان کو دھول کی طرح اڑا دے گا ۔
اور تم سے پہاڑوں کو پوچھتے ہیں ( ف۱٦۰ ) تم فرماؤ انھیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا ،
82 یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا
اور آپ سے یہ لوگ پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں ، سو فرمادیجئے: میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :82 یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سنائی جا رہی ہوگی اس وقت کسی نے مذاق اڑانے کے لیے یہ سوال اٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے چلے جا رہے ہوں گے ۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ مکہ جس مقام پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں ۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی ۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرے ، اور ان کو دھول کی طرح اڑا کر ساری زمین ایک ایسی ہموار میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی ، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا ، اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بل اور کوئی معمولی سی سلوٹ تک نہ ہو ۔
پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی ۔ قاع کے معنی ہموار صاف میدان ہے ۔ صفصفا اسی کی تاکید ہے اور صفصف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں ۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی ۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آوازپر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہو گی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے ۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے ۔ اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے ۔ اندھیری جگہ حشر ہو گا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آوازپر سب چل کھڑے ہوں گے ۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی ۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی ۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی ۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب ۔ جیسے ارشاد ہے ، ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥؁ ) 11-ھود:105 ) ۔ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے ۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے ۔