Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَاَكَلَا مِنۡهَا فَبَدَتۡ لَهُمَا سَوۡاٰ تُہُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفٰنِ عَلَيۡهِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَـنَّةِ‌ وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‌ۖ‏ ﴿121﴾
چناچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ۔ آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا ۔
فاكلا منها فبدت لهما سواتهما و طفقا يخصفن عليهما من ورق الجنة و عصى ادم ربه فغوى
And Adam and his wife ate of it, and their private parts became apparent to them, and they began to fasten over themselves from the leaves of Paradise. And Adam disobeyed his Lord and erred.
Chunacha inn dono ney uss darakht say kuch kha liya pus unn kay satar khul gaye aur bahisht kay pattay apney upper taankney lagay. Adam ( alh-e-salam ) ney apney rab ki na-farmani ki pus behak gaya.
چنانچہ ان دونوں نے اس درخت میں سے کچھ کھالیا جس سے ان دونوں کے شرم کے مقامات ان کے سامنے کھل گئے ، اور وہ دونوں جنت کے پتوں کو اپنے اوپر گانٹھنے لگے ۔ اور ( اس طرح ) آدم نے اپنے رب کا کہا ٹالا ، اور بھٹک گئے ۔ ( ٥٢ )
تو ان دونوں نے اس میں سے کھالیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں ( ف۱۸۱ ) اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے ( ف۱۸۲ ) اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی ( ف۱۸٦ )
آخر کار دونوں﴿میاں بیوی﴾ اس درخت کا پھل کھاگئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فورا ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے ۔ 101 آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا ۔ 102
سو دونوں نے ( اس مقامِ قربِ الٰہی کی لازوال زندگی کے شوق میں ) اس درخت سے پھل کھا لیا پس ان پر ان کے مقام ہائے سَتَر ظاہر ہو گئے اور دونوں اپنے ( بدن ) پر جنت ( کے درختوں ) کے پتے چپکانے لگے اور آدم ( علیہ السلام ) سے اپنے رب کے حکم ( کو سمجھنے ) میں فروگذاشت ہوئی٭ سو وہ ( جنت میں دائمی زندگی کی ) مراد نہ پا سکے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :101 بالفاظ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرداری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں ، اور اس کا اولین ظہور لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا ۔ غذا ، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی ، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا ، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد ہی میں آسکتی تھی ۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری پوشاک تھی جو اسی وقت اتر والی گئی ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :102 یہاں اس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے جو آدم علیہ السلام سے ظہور میں آئی ۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور رب جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے ۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا ۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہ راست علم ہو چکا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ ان کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکاؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا ۔ ان ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آکر ایک بہتر حالت ( زندگی جاوداں اور سلطنت لازوال ) کا لالچ دلایا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھسل گئے ، حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے ۔ بس ایک فوری جذبے نے ، جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبط نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے ۔ یہی وہ بھول اور فقدان عزم ہے جس کا ذکر قصے کے آغاز میں کیا گیا تھا ، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے ۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہوئی ، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا ہے جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو ۔