Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمۡ وَهُمۡ فِىۡ غَفۡلَةٍ مُّعۡرِضُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿1﴾
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
اقترب للناس حسابهم و هم في غفلة معرضون
[The time of] their account has approached for the people, while they are in heedlessness turning away.
Logon kay hisab ka waqt qareeb aagaya phir bhi woh bey khabri mein mun pheray huye hain.
لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا ہے ، اور وہ ہیں کہ غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں ( ف۲ )
قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ، 1 اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ 2
لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں ( پڑے طاعت سے ) منہ پھیرے ہوئے ہیں
سورة الْاَنبیَآء حاشیہ نمبر :1 مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثتُ انا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتینِ ، میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے ۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے ۔ شعر ( الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن ) موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے ۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی ۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں ۔ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے ۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے ۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں ۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں ۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی ، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی ۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے ۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے ، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے ۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے ۔ پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے ۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا ۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے ۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے ۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ ) 10- یونس:96 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں ، ایمان قبول نہ کریں گے ۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مجمع مسجد میں تھا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا ۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابو بکر تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام اونٹنی لائے ، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رونے لگے ۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو ۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو ۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے ۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں ۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں ۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے ۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے ۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے ۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران وپریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا ۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی ۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے ۔