Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
لَوۡ كَانَ فِيۡهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَـفَسَدَتَا‌ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا يَصِفُوۡنَ‏ ﴿22﴾
اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالٰی کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے ، پس اللہ تعالٰی عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں ۔
لو كان فيهما الهة الا الله لفسدتا فسبحن الله رب العرش عما يصفون
Had there been within the heavens and earth gods besides Allah , they both would have been ruined. So exalted is Allah , Lord of the Throne, above what they describe.
Agar aasman-o-zamin mein siwaye Allah Taalaa kay aur bhi mabood hotay to yeh dono darhum barhum ho jatay pus Allah Taalaa arsh ka rab her uss wasf say pak hai jo yeh mushrik biyan kertay hain.
اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ ( ١٠ ) لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں ۔
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور وہ ( ف٤۰ ) تباہ ہوجاتے ( ف٤۱ ) تو پاکی ہے اللہ عرش کے مالک کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں ( ف٤۲ )
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ﴿ زمین اور آسمان﴾ دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ 22 پس پاک ہے اللہ رب العرش 23 ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔
اگر ان دونوں ( زمین و آسمان ) میں اﷲ کے سوا اور ( بھی ) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے ، پس اﷲ جو عرش کا مالک ہے ان ( باتوں ) سے پاک ہے جو یہ ( مشرک ) بیان کرتے ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :22 یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی ، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں ۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام ، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک ، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے ۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو ۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بے شمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو ۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے ۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 85 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :23 رب العرش ، یعنی کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ۔