Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً  ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿245﴾
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالٰی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضعفه له اضعافا كثيرة و الله يقبض و يبصط و اليه ترجعون
Who is it that would loan Allah a goodly loan so He may multiply it for him many times over? And it is Allah who withholds and grants abundance, and to Him you will be returned.
Aisa bhi koi hai jo Allah Taalaa ko acha qarz dey pus Allah Taalaa ussay boht barha charha ker ata farmaye Allah hi tangi aur kushadgi kerta hai aur tum sab ussi ki taraf lotaye jao gay.
کون ہے جو اللہ کو اچھے طریقے پر قرض دے ، تاکہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدر جہاز یا دہ ہوجائے ؟ ( ١٦٤ ) اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے ، اور وہی وسعت دیتا ہے ، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا ۔
ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے ( ف٤۹۲ ) تو اللہ اس کے لئے بہت گنُا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے ( ف٤۹۳ ) اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا ،
تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حَسَنہ دے 267 تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا ، اور اﷲ ہی ( تمہارے رزق میں ) تنگی اور کشادگی کرتا ہے ، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :267 ”قرض حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے ، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے ۔ اس طرح جو مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے ، اسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ دوں گا ۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرض حسن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے ، بلکہ محض اللہ کی خاطر ان کاموں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے ۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرو: پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے ، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم ، اس آیت کو سن کر حضرت ابو الاصداح انصاری نے کہا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئے ، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت ابو ہریرہ سے ابو عثمان نہدی پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے ( مسند احمد ) لیکن یہ حدیث غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ حضرت ابو ہریرہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا ، آپ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا ، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی ، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود حضرت ابو ہریرہ سے پوچھ لوں ، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں ، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا ، وہاں آپ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا حضرت یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت ( فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ ) 9 ۔ التوبہ:38 ) یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے ۔ اللہ کی قسم میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے ۔ اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں دعا ( لا الہ الا اللہ واحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کلی شئی قدیر ) پڑھے ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے آیت ( مثل الذین ) الخ ، کی آیت اتری آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب ) کی آیت اتری ، حضرت کعب احبار سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت ( قل ھو اللہ ) الخ ، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں ، کیا میں اسے سچ مان لوں ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت ( اضعافا کثیرۃ ) فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو ، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے ، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔