Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰى‌ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ قَالَ هَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِيَارِنَا وَاَبۡنَآٮِٕنَا ‌ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِيۡلًا مِّنۡهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿246﴾
کیا آپ نے ( حضرت ) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں ۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو ، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں ۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔
الم تر الى الملا من بني اسراءيل من بعد موسى اذ قالوا لنبي لهم ابعث لنا ملكا نقاتل في سبيل الله قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الا تقاتلوا قالوا و ما لنا الا نقاتل في سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابناىنا فلما كتب عليهم القتال تولوا الا قليلا منهم و الله عليم بالظلمين
Have you not considered the assembly of the Children of Israel after [the time of] Moses when they said to a prophet of theirs, "Send to us a king, and we will fight in the way of Allah "? He said, "Would you perhaps refrain from fighting if fighting was prescribed for you?" They said, "And why should we not fight in the cause of Allah when we have been driven out from our homes and from our children?" But when fighting was prescribed for them, they turned away, except for a few of them. And Allah is Knowing of the wrongdoers.
Kiya aap ney ( hazrat ) musa kay baad wali bani israeel ki jamat ko nahi dekha jab kay unhon ney apney payghumbar say kaha kay kissi ko humara badshah bana dijiye takay hum Allah ki raah mein jihad keren. Payghumbar ney kaha mumkin hai jihad farz hojaney kay baad tum jihad na kero unhon ney kaha bhala hum Allah ki raah mein jihad kiyon na keren gay? Hum to apney gharon say ujaray gaye hain aur bachon say door ker diye gaye hain. Phir jab unn per jihad farz hua to siwaye thoray say logon kay sab phir gaye aur Allah Taalaa zalimon ko khoob janta hai.
کیا تمہیں موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے گروہ کے اس واقعے کا علم نہیں ہوا جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا تھا کہ ہمارا ایک بادشاہ مقرر کردیجیے تاکہ ( اس کے جھنڈے تلے ) ہم اللہ کے راستے میں جنگ کرسکیں ۔ ( ١٦٥ ) نبی نے کہا : کیا تم لوگوں سے یہ بات کچھ بعید ہے کہ جب تم پر جنگ فرض کی جائے تو تم نہ لڑو؟ انہوں نے کہا : بھلا ہمیں کیا ہوجائے گا جو ہم اللہ کے راستے میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور اپنے بچوں کے پاس سے نکال باہر کیا گیا ہے ۔ پھر ( ہوا یہی کہ ) جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے تھوڑے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب پیٹھ پھیر گئے ، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔
اے محبوب !کیا تم نے نہ دیکھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسیٰ کے بعد ہوا ( ف٤۹٤ ) جب اپنے ایک پیغمبر سے بولے ہمارے لیے کھڑا کردو ایک بادشاہ کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں ، نبی نے فرمایا کیا تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے تو پھر نہ کرو ، بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن اور اپنی اولاد سے ( ف٤۹۵ ) تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے مگر ان میں کے تھوڑے ( ف٤۹٦ ) اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو ،
پھر تم نے اس معاملے پر بھی غور کیا ، جو موسیٰ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا ؟ انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں ۔ 268 نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو ۔ وہ کہنےلگے: بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم راہ خدا میں نہ لڑیں ، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا ، تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے ، اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے ۔
۔ ( اے حبیب! ) کیا آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسٰی ( علیہ السلام ) کے بعد ہوا ، جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم ( اس کی قیادت میں ) اﷲ کی راہ میں جنگ کریں ، نبی نے ( ان سے ) فرمایا: کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کردیا جائے تو تم قتال ہی نہ کرو ، وہ کہنے لگے: ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے ، سو جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے ، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :268 یہ تقریباً ایک ہزار برس قبل مسیح کا واقعہ ہے ۔ اس وقت بنی اسرائیل پر عمالقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے ۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے ، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے ۔ اس لیے سرداران بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسوس کی کہ کوئی اور شخص ان کا سربراہ کار ہو ، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں ۔ لیکن اس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق ان کے ذہنوں سے نکل گیا تھا ۔ اس لیے انھوں نے درخواست جو کی ، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں ، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی ۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اول میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں: ”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ ، تو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے ۔ اب تو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے ، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات سموئیل کو بری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں ان کا بادشاہ نہ رہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو ، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے ، خداوند کی سب باتیں کہہ سنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا ، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اور رتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو گندھن اور باورچن اور نان پز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے ، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصہ لے گا ۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے ، جسے تم نے اپنے لیے چنا ہوگا فریاد کرو گے ، پر اس دن خداوند تم کو جواب نہ دے گا ۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سنی اور کہنے لگے نہیں ، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں ، جو ہمارے اوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا ، تو ان کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔ “ ( باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲ ) ”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا ۔ سو اب اس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چن لیا اور جس کے لیے تم نے درخواست کی تھی ۔ دیکھو خداوند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے ۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خداوند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے ، خداوند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو ، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو ، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو ، تو خداوند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا ، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم جان لو گے اور دیکھ بھی لو گے کہ تم نے خداوند کے حضور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب رہا میں ، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں ، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے ، تم کو بتاؤں گا ۔ “ ( باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳ ) کتاب سموئیل کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اس کے نبی کو پسند نہ تھا ۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اس مقام پر سرداران بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ ان کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا ۔ یہاں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اندر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گر گئے ۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں ۔
بنی اسرائیل پر ایک اور احسان جس نبی کا یہاں ذِکر ہے ان کا نام حضرت قتادہ نے حضرت یوشع بن نون بن افرایم بن یوسف بن یعقوب بتایا ہے ، لیکن یہ قول ٹھیک معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد کا حضرت داؤد کے زمانے کا ہے ، جیسا کہ صراحتاً وارد ہوا ہے ، اور حضرت داؤد اور حضرت موسیٰ کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے واللہ اعلم ، سدی کا قول ہے کہ یہ پیغمبر حضرت شمعون ہیں ، مجاہد کہتے ہیں یہ شمویل بن یالی بن علقمہ بن صفیہ بن علقمہ با ابو ہاشف بن قارون بن یصہر بن فاحث بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کچھ زمانہ تک تو بنی اسرائیل راہِ حق پر رہے ، پھر شرک و بدعت میں پڑ گئے مگر تاہم ان میں پے درپے انبیاء مبعوث ہوتے رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بےباکیاں حد سے گزر گئیں ، اب اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر غالب کر دیا ، خوب پٹے کٹے ، اور اجڑے گئے ، پہلے تو توراۃ کی موجودگی تابوت سکینہ کی موجودگی جو حضرت موسیٰ سے موروثی چلی آ رہی تھی ان کیلئے باعث غلبہ ہوتی تھی ، مگر ان کی سرکشی اور بدترین گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھرانے میں ختم ہوئی ، لاوی جن کی اولاد میں پیغمبری کی جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں سے چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھرانے میں ختم ہوئی ، لاوی جن کی اولاد میں پیغمبری کی نسل چل آ رہی تھی ، وہ سارے کے سارے لڑائیوں میں مر کھپ گئے ، ان میں سے صرف ایک حاملہ عورت رہ گئی تھی ، ان کے خاوند بھی قتل ہو چکے تھے اب بنی اسرائیل کی نظریں اس عورت پر تھیں ، انہیں امید تھی کہ اللہ اسے لڑکا دے گا اور وہ لڑکا نبی بنے ، خود ان بیوی صاحبہ کی بھی دن رات یہی دعا تھی جو اللہ نے قبول فرمائی اور انہیں لڑکا دیا جن کا نام شمویل یا شمعون رکھا ، اس کے لفظی معنی ہیں کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ، نبوت کی عمر کو پہنچ کر انہیں بھی نبوت ملی ، جب آپ نے دعوت نبوت دی تو قوم نے درخواست کی کہ آپ ہمارا بادشاہ مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس کی ماتحتی میں جہاد کریں ، بادشاہ تو ظاہر ہو ہی گیا تھا لیکن پیغمبر نے اپنا کھٹکا بیان کیا کہ تم پھر جہاد سے جی نہ چراتے؟ قوم نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے ملک ہم سے چھین لئیے گئے ، ہمارے بال بچے گرفتار کئے گئے اور پھر بھی کیا ہم ایسے بےحمیت ہیں کہ مرنے مارنے سے ڈریں؟ اب جہاد فرض کر دیا گیا اور حکم ہوا کہ بادشاہ کے ساتھ اٹھو ، بس سنتے ہی سُن ہو گئے اور سوائے معدودے چند کے باقی سب نے منہ موڑ لیا ، ان سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، جس کا اللہ کو علم نہ ہو ۔