Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اللّٰهَ قَدۡ بَعَثَ لَـکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِكًا ‌ؕ قَالُوۡٓا اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهُ الۡمُلۡكُ عَلَيۡنَا وَنَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡكِ مِنۡهُ وَلَمۡ يُؤۡتَ سَعَةً مِّنَ الۡمَالِ‌ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ وَزَادَهٗ بَسۡطَةً فِى الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُؤۡتِىۡ مُلۡکَهٗ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿247﴾
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں ، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی ۔ نبی نے فرمایا سنو ، اللہ تعالٰی نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے ، اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔
و قال لهم نبيهم ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا قالوا انى يكون له الملك علينا و نحن احق بالملك منه و لم يؤت سعة من المال قال ان الله اصطفىه عليكم و زاده بسطة في العلم و الجسم و الله يؤتي ملكه من يشاء و الله واسع عليم
And their prophet said to them, "Indeed, Allah has sent to you Saul as a king." They said, "How can he have kingship over us while we are more worthy of kingship than him and he has not been given any measure of wealth?" He said, "Indeed, Allah has chosen him over you and has increased him abundantly in knowledge and stature. And Allah gives His sovereignty to whom He wills. And Allah is all-Encompassing [in favor] and Knowing."
Aur unhen unn kay nabi ney farmaya kay Allah Taalaa ney taloot ko tumahra badshah bana diya hai to kehney lagay bhala uss ki hum per hukoomat kaisay ho sakti hai? Uss say to boht ziyada haq daar badshaat kay hum hain uss ko to maali kushadgi bhi nahi di gaee. Nabi ney farmaya suno Allah Taalaa ney ussi ko tum per bar gazeedah kiya hai aur ussay ilmi aur jismani bartari bhi ata farmaee hai baat yeh hai kay Allah jisay chahaye apna mulk dey Allah Taalaa kushadgi wala aur ilm wala hai.
اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے ۔ کہنے لگے : بھلا اس کو ہم پر بادشاہت کرنے کا حق کہاں سے آگیا؟ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں ، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں ۔ نبی نے کہا : اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں ( تم سے ) زیادہ وسعت عطا کی ہے ، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے ، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے ۔
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بیشک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے ( ف٤۹۷ ) بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی ( ف٤۹۸ ) اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی ( ف٤۹۹ ) فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا ( ف۵۰۰ ) اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی ( ف۵۰۱ ) اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے ( ف۵۰۲ ) اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ( ف۵۰۳ )
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت 269 کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے ۔ یہ سن کر وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہوگیا ؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں ۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے ۔ نبی نے جواب دیا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کےعلم میں ہے ۔
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے ، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت ( کرنے ) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی ، ( نبی نے ) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے ، اور اﷲ اپنی سلطنت ( کی امانت ) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے ، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے
سورة الْبَقَرَ حاشیہ نمبر :269 بائیبل میں اس کا نام ساؤل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے ۔ “ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا ۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے ۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے ، تیل کی کپی لے کر اس کے سر پر انڈیلی اور اسے چوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو ۔ “ اس کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماع عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا ( ۱- سموئیل ، باب ۹ و ۱۰ ) یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن ( Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسوح یا مسیح حضرت داؤد علیہ السلام ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوت کے منصب پر بھی سرفراز ہوا تھا ۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے نبی تسلیم کیا جائے ۔
خوئے بدرا بہانہ بسیار مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر نے بحکم الہ حضرت طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے ، ایک لشکری تھے ، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں ، مفلس شخص ہے ، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے ، پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی ، پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کر سکوں ، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے ، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہئے ۔ پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے ۔ اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے ، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے ، وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں ۔