Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اٰيَةَ مُلۡکِهٖۤ اَنۡ يَّاۡتِيَکُمُ التَّابُوۡتُ فِيۡهِ سَکِيۡنَةٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوۡسٰى وَاٰلُ هٰرُوۡنَ تَحۡمِلُهُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿248﴾
ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے ۔ فرشتے اسے اُٹھا کر لائیں گے ۔ یقیناً یہ تو تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو ۔
و قال لهم نبيهم ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك ال موسى و ال هرون تحمله الملىكة ان في ذلك لاية لكم ان كنتم مؤمنين
And their prophet said to them, "Indeed, a sign of his kingship is that the chest will come to you in which is assurance from your Lord and a remnant of what the family of Moses and the family of Aaron had left, carried by the angels. Indeed in that is a sign for you, if you are believers."
Unn kay nabi ney unhen phir kaha kay uss ki badshaat ki zahiri nishani yeh hai kay tumharay pass woh sandooq aa jaye ga jiss mein tumharay rab ki taraf say dil jamaee aur aal-e-musa aur aal-e-haroon ka baqiya tarqa hai farishtay ussay utha ker layen gay. Yaqeenan yeh to tumharay liye khuli daleel hai agar tum eman laye ho.
اور ان سے ان کے نبی نے یہ بھی کہا کہ : طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق ( واپس ) آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے ، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں ۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے ( ١٦٦ ) اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے ۔
ور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت ( ف۵۰٤ ) جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ ٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے ، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو ،
اس کے ساتھ ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتایا کہ خدا کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا ، جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے سکونِ قلب کا سامان ہے ، جس میں آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبّرکات ہیں ، اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 270 اگر تم مومن ہو ، تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے ۔ ؏۳۲
اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا: اس کی سلطنت ( کے مِن جانِبِ اﷲ ہونے ) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسٰی اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا ، اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :270 بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے ۔ تاہم اس سے اصل واقع کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق ، جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ” عہد کا صندوق “ کہتے تھے ، ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا ، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا ، وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں ۔ آخر کار انہوں نے خوف کے مارے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا ۔ غالباً اسی معاملے کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا ، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”اس صندوق میں تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہے“ ، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے ۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، تو پوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھر گئی ہے اور اب ہمارے برے دن آگئے ہیں ۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے لئے بڑی تقویت قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا ، جس سے ان کی ٹوٹی ہوئی ہمّیں پھر بن سکتی تھیں ۔ ”آلِ موسی علیہ السلام اور آل ہارون علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات “ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ، ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں ، جو طور سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں ۔ اس کےعلاوہ تورات کا وہ اصل نسخہ بھی اس میں تھا ، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا ۔ نیز ایک بوتل میں من بھی بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کریں ، جو صحرا میں اس نے ان کے باپ دادا پر کیا تھا ۔ اور غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا ، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا ۔
تابوت سکینہ اور جنگ طالوت و جالوت نبی فرما رہے ہی کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت برکت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا ، جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو ، بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو حضرت موسیٰ کو ملا تھا اور جس میں آپ نے توراۃ کی تختیاں رکھی تھیں ، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی ، ہاتھ بھی تھا ، دو سر تھے ، دو پر تھے اور دُم بھی تھی ، وہب کہتے یہں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور لڑائی فتح ہو جاتی ، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور حضرت طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا ، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا ، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا ، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے ، انہں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا ، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے ، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا ، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی ، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی ، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی ، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا ، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے ، بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے واللہ اعلم ، ( لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے ( مترجم ) یہ بھی کہا گیا کہ ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا ۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے ، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو ۔