سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :57
یعنی موقع پاکر جبکہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے ، حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے ، اور سارے بتوں کو توڑ ڈالا ۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :58
اس کی طرف کا اشارہ بڑے بت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی ۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ان کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے ۔ یعنی اگر ان کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو ۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور ۔ آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا ؟ کون یہ کام کر گیا ؟ اور آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کارروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید ان کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا ۔