Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَجَعَلَهُمۡ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيۡرًا لَّهُمۡ لَعَلَّهُمۡ اِلَيۡهِ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿58﴾
پس اس نےان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں ۔
فجعلهم جذذا الا كبيرا لهم لعلهم اليه يرجعون
So he made them into fragments, except a large one among them, that they might return to it [and question].
Pus uss ney unn sab kay tukray tukray ker diye haan sirf baray butt ko chor diya yeh bhi iss liye kay woh sab uss ki taraf hi loten.
چنانچہ ابراہیم نے ان کے بڑے بت کے سوا سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ، تاکہ وہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ۔ ( ٢٥ )
تو ان سب کو ( ف۱۰۸ ) چورا کردیا مگر ایک کو جو ان کا سب سے بڑا تھا ( ف۱۰۹ ) کہ شاید وہ اس سے کچھ پوچھیں ( ف۱۱۰ )
چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا 57 اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ 58
پھر ابراہیم ( علیہ السلام ) نے ان ( بتوں ) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے ( بُت ) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :57 یعنی موقع پاکر جبکہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے ، حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے ، اور سارے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :58 اس کی طرف کا اشارہ بڑے بت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی ۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ان کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے ۔ یعنی اگر ان کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو ۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور ۔ آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا ؟ کون یہ کام کر گیا ؟ اور آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کارروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید ان کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا ۔