Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
قَالَ بَلۡ فَعَلَهٗ ‌‌ۖ  كَبِيۡرُهُمۡ هٰذَا فَسۡـــَٔلُوۡهُمۡ اِنۡ كَانُوۡا يَنۡطِقُوۡنَ‏ ﴿63﴾
آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں ۔
قال بل فعله كبيرهم هذا فسلوهم ان كانوا ينطقون
He said, "Rather, this - the largest of them - did it, so ask them, if they should [be able to] speak."
Aap ney jawab diya bulkay iss kaam ko inn kay baray ney kiya hai tum apney khudaon say hi pooch lo agar yeh boltay chaltay hon.
ابراہیم نے کہا : نہیں ، بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے ، اب انہی بتوں سے پوچھ لو ، اگر یہ بولتے ہوں ۔ ( ٢٦ )
فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا ( ف۱۱٤ ) تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہوں ( ف۱۱۵ )
” اس نے جواب دیا ” بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے ، ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں ۔ ” 60
آپ نے فرمایا: بلکہ یہ ( کام ) ان کے اس بڑے ( بت ) نے کیا ہوگا تو ان ( بتوں ) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :60 یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا ، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ انکے یہ معبود بالکل بے بس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی ۔ ایسے موقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں ۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے ۔ بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں ۔ ان میں سے ایک جھوٹ تو یہ ہے ، اور دوسرا جھوٹ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول : اِنِی سَقِیْمٌ ہے ، اور تیسرا جھوٹ ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے ۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے ۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے ۔ یہ حدیث ، جس میں حضرت کے تین جھوٹ بیان کیے گئے ہیں ، صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے ۔ کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے ۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں ۔ ان میں سے ایک جھوٹ کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ جھوٹ کا اطلاق نہیں کر سکتا ، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معاذ اللہ اس سخن نا شناسی کی توقیر کریں ۔ رہا : اِنِّی سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی ان کو نہ تھی ۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہو سکتا ۔ قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی اور اس عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا ۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے ( پیدائش ، باب 12 ) حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے جھوٹ کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے ۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے ؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل ، جلد دوم ، ص 35 تا 39 ) ۔