Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَفَهَّمۡنٰهَا سُلَيۡمٰنَ‌‌ۚ وَكُلًّا اٰتَيۡنَا حُكۡمًا وَّعِلۡمًا‌ وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ‌ ؕ وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ‏ ﴿79﴾
ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی ہم کرنے والے ہی تھے ۔
ففهمنها سليمن و كلا اتينا حكما و علما و سخرنا مع داود الجبال يسبحن و الطير و كنا فعلين
And We gave understanding of the case to Solomon, and to each [of them] We gave judgement and knowledge. And We subjected the mountains to exalt [Us], along with David and [also] the birds. And We were doing [that].
Hum ney iss ka sahih faisla suleman ko samjha diya. Haan her aik ko hum ney hukum-o-ilm dey rakha tha aur dawood kay tabey hum ney pahar ker diye thay jo tasbeeh kertay thay aur parind bhi. Hum kerney walay hi thay.
چنانچہ اس فیصلے کی سمجھ ہم نے سلیمان کو دے دی ، اور ( ویسے ) ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا ۔ ( ٣٢ ) اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع دار بنا دیا تھا کہ وہ پرندوں کو ساتھ لے کر تسبیح کریں ۔ ( ٣٣ ) اور یہ سارے کام کرنے والے ہم تھے ۔
ہم نے وہ معاملہ سلیمان کو سمجھا دیا ( ف۱۳٦ ) اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا ( ف۱۳۷ ) اور داؤد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیے کہ تسبیح کرتے اور پرندے ( ف۱۳۸ ) اور یہ ہمارے کام تھے ،
اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا ، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا ۔ 70 داؤد ( علیہ السلام ) کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے ، 71 اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے ۔
چنانچہ ہم ہی نے سلیمان ( علیہ السلام ) کو وہ ( فیصلہ کرنے کا طریقہ ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں ( تک ) کو داؤد ( علیہ السلام ) کے ( حکم کے ) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ ( سب ان کے ساتھ مل کر ) تسبیح پڑھتے تھے ، اور ہم ہی ( یہ سب کچھ ) کرنے والے تھے
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :70 اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا ۔ مسلمان مفسرین نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھس گئی تھیں ۔ اس نے حضرت داؤد کے ہاں استغاثہ کیا ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی بکریاں چھین کر اسے دے دی جائیں ۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ بکریاں اس وقت تک کھیت والے کے پاس رہیں جب تک بکری والا اس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے ۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھایا تھا ۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ ، شافعیہ ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی ۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی تھے ، الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا ۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی اور وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کر گئے ، حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہبی کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے ۔ ضمناً اس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں ، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں تو اگرچہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا ، لیکن دونوں بر حق ہوں گے ، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو ، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ بخاری میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطأ فلہ اجرٌ ۔ اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر ۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بریدہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قاضی تین قسم کے ہیں ، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی ۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے ۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے ۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :71 مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗد کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی داوٗد علیہ السلام کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ ہ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ کُلٌّ لَّہ اَوَّابٌ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کردیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ وَالطَّیْرَ ۔ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا ۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھہر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لقد اوتی مزماراً من مزامیر اٰل داوٗد ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے ۔