Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَعَلَّمۡنٰهُ صَنۡعَةَ لَبُوۡسٍ لَّـكُمۡ لِتُحۡصِنَكُمۡ مِّنۡۢ بَاۡسِكُمۡ‌ۚ فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ شٰكِرُوۡنَ‏ ﴿80﴾
اورہم نے اسے تمہارے لئے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تاکہ لڑائی کے ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو کیا تم شکر گزار بنو گے؟
و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من باسكم فهل انتم شكرون
And We taught him the fashioning of coats of armor to protect you from your [enemy in] battle. So will you then be grateful?
Aur hum ney ussay tumharay liye libaas bananey ki kaari gari sikhaee takay laraee kay zarar say tumhara bachao ho. Kiya tum shukar guzar bano gay?
اور ہم نے انہیں تمہارے فائدے کے لیے ایک جنگی لباس ( یعنی زرہ ) بنانے کی صنعت سکھائی تاکہ وہ تمہیں لڑائی میں ایکد وسرے کی زد سے بچائیں ۔ ( ٣٤ ) اب بتاؤ کہ کیا تم شکر گذار ہو؟
اور ہم نے اسے تمہارا ایک پہناوا بنانا سکھایا کہ تمہیں تمہاری آنچ سے ( زخمی ہونے سے ) بچائے ( ف۱۳۹ ) تو کیا تم شکر کروگے ،
اور ہم نے اس کے تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی ، تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے ، 72 پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ 73
اور ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) کو تمہارے لئے زِرہ بنانے کا فن سکھایا تھا تاکہ وہ تمہاری لڑائی میں تمہیں ضرر سے بچائے ، تو کیا تم شکر گزار ہو
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :72 سورہ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ ، اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا ( اور اس کو ہدایت کی ) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی ، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron . Age ) 1200 ق م اور 1000 ق م کے درمیان شروع ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم ( Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی ۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آ سکتا تھا ۔ بعد میں فلستیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا ، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتیوں اور فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا ، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے ۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے ( یشوع باب 17 ۔ آیت 16 ۔ قُضاۃ باب 1 ۔ آیت 19 ۔ باب 4 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) ۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا ، اور پھر حضرت داؤد ( 1004 ق م 965 ق م ) نے نہ صرف فلسطین و شرق اردن ، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی ۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا ، بے نقاب ہو گیا ، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے ( Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے ، اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عَقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ ، عِسْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی ( Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا ، کیونکہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :73 حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 251 ، بنی اسرائیل حاشیہ 7 ۔ 63 ۔