Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِدۡرِيۡسَ وَذَا الۡكِفۡلِ‌ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ ﴿85﴾
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل ( علیہم السلام ) یہ سب صابر لوگ تھے ۔
و اسمعيل و ادريس و ذا الكفل كل من الصبرين
And [mention] Ishmael and Idrees and Dhul-Kifl; all were of the patient.
Aur ismail ( alh-e-salam ) aur idress ( alh-e-salam ) aur zulkifl ( alh-e-salam ) yeh sab sabir log thay.
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو دیکھو ! یہ سب صبر کرنے و الوں میں سے تھے ۔ ( ٣٩ )
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو ( یاد کرو ) ، وہ سب صبر والے تھے ( ف۱٤۸ )
اور یہی نعمت اسماعیل ( علیہ السلام ) اور ادریس ( علیہ السلام ) 80 اور ذوالکفل ( علیہ السلام ) 81 کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے ۔
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل ( علیہم السلام کو بھی یاد فرمائیں ) ، یہ سب صابر لوگ تھے
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :80 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورہ مریم ، حاشیہ 33 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :81 ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے صاحب نصیب ، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب آخرت کے لحاظ سے صاحب نصیب ، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے ۔ قرآن مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ، نام نہیں لیا گیا ۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں ، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، اور کس زمانے میں گزرے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے ( حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے ۔ ) کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت الیاس ہیں ، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے ، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں ، ( حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورہ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ ) ، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشْر تھا ۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حزقیال ( حِزْقیِ اِیل ) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری ( 597 ق ۔ م ) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے ۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں ۔ موجودہ زمانے کے مفسرین نے اپنا میلان جزقی ایک نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے ۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابل ترجیح ہو سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ جزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے ۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل اَبیب تھا ۔ اسی مقام پر 594 ق ۔ م ، میں حضرت حزقی اہل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر 30 سال تھی ، اور مسلسل 22 سال ایک طرف گرفتار بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکانے کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اس کار عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال ان کی بیوی ، جنہیں وہ خود منظور نظر کہتے ہیں ، انتقال کر جاتی ہیں ، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ اور یہ اپنا دکھڑا چھوڑ کر اپنی ملت کو خدا کے اس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تلا کھڑا تھا ( باب 24 ۔ آیات 15 ۔ 27 ) ۔ بائیبل کا صحیفہ حزقی ایل ان صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہو گا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے ۔
ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہوچکاہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد وپیمان کئے اور ان پر قائم رہے ۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے ۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کردوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے ۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں ۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو ۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا ۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں ۔ یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی ۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا ۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا ۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا ۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی ۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے ۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا ۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا ، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے ۔ وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کردیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کردیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کردئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا ۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا ۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا ۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا ۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا ۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کردکھایا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا ۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا ۔ ایک منقطع روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے ۔ ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا ۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں ۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی ۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی ۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے ۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے ۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے ۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا ۔