Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّنَ الۡبَـعۡثِ فَاِنَّـا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيۡرِ مُخَلَّقَةٍ لِّـنُبَيِّنَ لَـكُمۡ‌ ؕ وَنُقِرُّ فِى الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ‌ۚ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَتَرَى الۡاَرۡضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهَا الۡمَآءَ اهۡتَزَّتۡ وَرَبَتۡ وَاَنۡۢبَـتَتۡ مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍۢ بَهِيۡجٍ‏ ﴿5﴾
لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بے نقشہ تھا یہ ہم تم پر ظاہر کر دیتے ہیں اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو ، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے تو دیکھتا ہے کہ زمین ( بنجر اور ) خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارشیں برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے ۔
يايها الناس ان كنتم في ريب من البعث فانا خلقنكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلقة و غير مخلقة لنبين لكم و نقر في الارحام ما نشاء الى اجل مسمى ثم نخرجكم طفلا ثم لتبلغوا اشدكم و منكم من يتوفى و منكم من يرد الى ارذل العمر لكيلا يعلم من بعد علم شيا و ترى الارض هامدة فاذا انزلنا عليها الماء اهتزت و ربت و انبتت من كل زوج بهيج
O People, if you should be in doubt about the Resurrection, then [consider that] indeed, We created you from dust, then from a sperm-drop, then from a clinging clot, and then from a lump of flesh, formed and unformed - that We may show you. And We settle in the wombs whom We will for a specified term, then We bring you out as a child, and then [We develop you] that you may reach your [time of] maturity. And among you is he who is taken in [early] death, and among you is he who is returned to the most decrepit [old] age so that he knows, after [once having] knowledge, nothing. And you see the earth barren, but when We send down upon it rain, it quivers and swells and grows [something] of every beautiful kind.
Logo agar tumhen marney kay baad ji uthney mein shak hai to socho hum ney tumhen mitti say peda kiya phir nutfay say phir khoon basta say phir gosht kay lothray say jo soorat diya gaya tha aur bey naqsha tha. Yeh hum tum per zahir ker detay hain aur hum jissay chahayen aik thehraye huye waqt tak reham-e-madir mein rakhtay hain phir tumhen bachpan ki halat mein duniya mein latay hain phir takay tum apni poori jawani ko phoncho tum mein say baaz to woh hain jo fot ker liye jatay hain aur baaz bey gharz umar ki taraf phir say lota diye jatay hain kay woh aik cheez say ba-khabar honey kay baad phir bey khabar hojaye. Tu dekhta hai kay zamin ( banjar aur ) khusk hai phir jab hum uss per barishen barsatay hain to woh ubharti hai aur phoolti hai aur her qisam ki ronaq daar nabataat ugati hai.
اے لوگو ! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کچھ شک ہے تو ( ذرا سوچو کہ ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ ( ١ ) پھر نطفے سے ، پھر ایک جمے ہوئے خون سے ، پھر ایک گوشت کے لوتھڑے سے جو ( کبھی ) پورا بن جاتا ہے ، اور ( کبھی ) پورا نہیں بنتا ( ٢ ) تاکہ ہم تمہارے لیے ( تمہاری ) حقیقت کھول کر بتا دیں ، اور ہم ( تمہیں ) ماؤں کے پیٹ میں جب تک چاہتے ہیں ، ایک متعین مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تمہیں ایک بچے کی شکل میں باہر لاتے ہیں ، پھر ( تمہیں پالتے ہیں ) تاکہ تم اپنی بھر پور عمر تک پہنچ جاؤ ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو ( پہلے ہی ) دنیا سے اٹھا لیے جاتے ہیں اور تمہی میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بدترین عمر ( یعنی انتہائی بڑھاپے ) تک لوٹا دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے ۔ ( ٣ ) اور تم دیکھتے ہو کہ زمین مرجھائی ہوئی پڑی ہے ، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آتی ہے ، اس میں بڑھوتری ہوتی ہے ، اور وہ ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے ۔ ( ٤ )
اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے ( ف۱۰ ) پھر پانی کی بوند سے ( ف۱۱ ) پھر خون کی پھٹک سے ( ف۹۱۲ پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بےبنی ( ف۱۳ ) تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں ( ف۱٤ ) اور ہم ٹھہرائے رکھتے ہیں ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہیں ایک مقرر میعاد تک ( ف۱۵ ) پھر تمہیں نکالتے ہیں بچہ پھر ( ف۱٦ ) اس لیے کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو ( ف ۱۷ ) اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب میں نکمی عمر تک ڈالا جاتا ہے ( ف۱۸ ) کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ( ف۱۹ ) اور تو زمین کو دیکھے مرجھائی ہوئی ( ف۲۰ ) پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا ترو تازہ ہوئی اور ابھر آئی اور ہر رونق دار جوڑا ( ف۲۱ ) اُگا لائی ( ف۲۲ )
لوگو ، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے ، پھر نطفے سے 5 ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی ۔ 6 ﴿یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں﴾ تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں ۔ ہم جس ﴿نطفے﴾ کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں﴿ پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں﴾ تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو ۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ۔ 7 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے ، پھر جہاں ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی ۔
اے لوگو! اگر تمہیں ( مرنے کے بعد ) جی اٹھنے میں شک ہے تو ( اپنی تخلیق و ارتقاء پر غور کرو کہ ) ہم نے تمہاری تخلیق ( کی کیمیائی ابتداء ) مٹی سے کی پھر ( حیاتیاتی ابتداء ) ایک تولیدی قطرہ سے پھر ( رحم مادر کے اندر جونک کی صورت میں ) معلق وجود سے پھر ایک ( ایسے ) لوتھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے ، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض ( اعضاء ) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لئے ( اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت ) ظاہر کر دیں ، اور ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں ، پھر ( تمہاری پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ ، اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو ( جلد ) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ ( شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ ) سب کچھ جان لینے کے بعد ( اب پھر ) کچھ ( بھی ) نہیں جانتا ، اور تو زمین کو بالکل خشک ( مُردہ ) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوش نما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :5 اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے ۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ O ( آیات 7 ۔ 8 ) انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :6 یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے ۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے ۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس لئے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :7 یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا ۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے ۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں ۔
پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں ۔ تم اپنی اصلیت پر غور کرکے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جن کی نسل تم سب ہو ۔ پھر تم سب کوذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا ۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے ، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں کوئی صورت وشبیہ نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سرہاتھ ، سینہ ، پیٹ ، رانیں ، پاؤں اور کل اعضابنتے ہیں ۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہوجاتا ہے ، کبھی اس کے بعد بچہ گرپڑتا ہے ۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے ۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے ۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جواسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنادیا جاتا ہے رزق ، اجل ، نیکی ، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے ۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے ، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی ، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے ۔ رزق ، عمل ، اجل ، شقی یاسعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھیرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ یہ مخلوق ہوگا یا نہیں ؟ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں ۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کردیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ؟ نیک ہوگا یابد؟ اجل کیا ہے؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھرنطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ ۔ پھرفرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے ۔ پھر حضرت عامر رحمتہ اللہ علیہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن اسید کی مرفوع روایت میں ہے کہ چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یالڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی پھر بچہ ہو کردنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ ۔ کمزور ہے اور تمام اعضا ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کردیتا ہے ۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے ۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہوجاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہوجاتے ہیں کہ پھرعقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہوجاتے ہیں ۔ حافظہ ، فہم ، فکر سب میں فتور پڑ جاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀ ) 30- الروم:54 ) اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والاہے ۔ مسندحافظ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر ۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچاس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کردیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کر دیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہوجاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تولکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لئے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بےعلم ہوجاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہوگئی تو وہ نہیں لکھی جاتی ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعا بھی ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفامروی ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے از فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی دوسری سند سے مرفوعا یہی وارد کی ہے ۔ حافظ ابو بکر بن بزار رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسے بہ روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوع میں بیان کیا ہے ( اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین ) مردوں کے زندہ کردینے کی ایک دلیل یہ بیان کرکے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ چٹیل میدان بےروئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کردیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہوجاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہوجاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہوجاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں ۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کامزا دی رہی ہے ۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں ۔ سچ ہے خالق ، مدبر ، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا ، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے ۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ۔ فرماتا ہے ہوجا ۔ پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے ۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلاشک وشبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کرکے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا ۔ سورۃ یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کرکے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلاکر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابو رزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ ہم نے کہا ہاں فرمایا پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے آپ نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیرآباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہوجاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے ( ابوداؤد وغیرہ ) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بےشبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقینا جنتی ہے ۔