Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّعۡبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرۡفٍ‌ ‌ۚ فَاِنۡ اَصَابَهٗ خَيۡرٌ اۨطۡمَاَنَّ بِهٖ‌ ۚ وَاِنۡ اَصَابَتۡهُ فِتۡنَةُ اۨنقَلَبَ عَلٰى وَجۡهِهٖ‌ۚ خَسِرَ الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةَ ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿11﴾
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر ( کھڑے ) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے ۔
و من الناس من يعبد الله على حرف فان اصابه خير اطمان به و ان اصابته فتنة انقلب على وجهه خسر الدنيا و الاخرة ذلك هو الخسران المبين
And of the people is he who worships Allah on an edge. If he is touched by good, he is reassured by it; but if he is struck by trial, he turns on his face [to the other direction]. He has lost [this] world and the Hereafter. That is what is the manifest loss.
Baaz log aisay bhi hain kay aik kinaray per ( kharay ) ho ker Allah ki ibadat kertay hain. Agar koi nafa mill gaya to dilchaspi leney lagtay hain aur agar koi aafat aagaee to ussi waqt mun pher letay hain enhon ney dono jahan ka nuksan utha liya. Waqaee yeh khulla nuksan hai.
اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے ۔ چنانچہ اگر اسے ( دنیا میں ) کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آگئی تو وہ منہ موڑ کر ( پھر کفر کی طرف ) چل دیتا ہے ۔ ( ٧ ) ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی ، اور آخرت بھی ۔ یہی تو کھلا ہوا گھاٹا ہے ۔
اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے ہیں ( ف۳۰ ) پھر اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچ گئی جب تو چین سے ہیں اور جب کوئی جانچ آکر پڑی ( ف۳۱ ) منہ کے بل پلٹ گئے ، ( ف۳۲ ) دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا ( ف۳۳ ) یہی ہے صریح نقصان ( ف۳٤ )
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے ، 15 اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا ۔ 16 اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ۔ یہ ہے صریح خسارہ ۔ 17
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو ( بالکل دین کے ) کنارے پر ( رہ کر ) اﷲ کی عبادت کرتا ہے ، پس اگر اسے کوئی ( دنیاوی ) بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس ( دین ) سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے تو اپنے منہ کے بل ( دین سے ) پلٹ جاتا ہے ، اس نے دنیا میں ( بھی ) نقصان اٹھایا اور آخرت میں ( بھی ) ، یہی تو واضح ( طور پر ) بڑا خسارہ ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :15 یعنی دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر ، یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے ۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو ، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آ ملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :16 اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت ، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو ، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے ، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے ۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے ۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی ، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا ، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی ، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت ، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا ۔ پھر وہ ہر اس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :17 یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے ۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے ۔ کافر اپنے رب سے بے نیاز ، آخرت سے بے پروا ، اور قوانین الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسوئی کے ساتھ مادی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھو دے ، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے ۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیروی کرتا ہے تو اگرچہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر رہتی ہے ، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ، آخرت میں بہرحال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے ۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے ۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے ، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے ، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے ، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی ۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف ، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی ۔
شک کے مارے لوگ حرف کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں ۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے ، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ( ابن عباس سے مروی ) ہے کہ اعراب ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے ۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے ، جانوروں میں ، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے توجھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ بروایت عوفی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا ، مصیبت آگئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی ، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے ۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے ۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیاکرتے ہیں ، مرتد کافر ہوجاتے ہیں ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں ، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں ، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں ، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے ۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے ۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے ۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے واللہ اعلم ۔