Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسۡجُدُ لَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ وَالشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ وَالنُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَكَثِيۡرٌ مِّنَ النَّاسِ‌ ؕ وَكَثِيۡرٌ حَقَّ عَلَيۡهِ الۡعَذَابُ‌ؕ وَمَنۡ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ مُّكۡرِمٍ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَفۡعَلُ مَا يَشَآءُ ۩  ؕ‏ ﴿18﴾
کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہو چکا ہے جسے رب ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔
الم تر ان الله يسجد له من في السموت و من في الارض و الشمس و القمر و النجوم و الجبال و الشجر و الدواب و كثير من الناس و كثير حق عليه العذاب و من يهن الله فما له من مكرم ان الله يفعل ما يشاء
Do you not see that to Allah prostrates whoever is in the heavens and whoever is on the earth and the sun, the moon, the stars, the mountains, the trees, the moving creatures and many of the people? But upon many the punishment has been justified. And he whom Allah humiliates - for him there is no bestower of honor. Indeed, Allah does what He wills.
Kiya tu nahi dekh raha kay Allah kay samney sajday mein hain sab aasmano walay aur sab zamino walay aur sooraj aur chand aur sitaray aur pahar aur darakht aur janwar aur boht say insan bhi. Haan boht say woh bhi hain jin per azab ka maqoola sabit ho chuka hai jisay rab zaleel ker dey ussay koi izzat deney wala nahi Allah jo chahata hai kerta hai.
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے آگے وہ سب سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں ۔ ( ١١ ) نیز سورج اور چاند ، اور ستارے اور پہاڑ ، اور درخت اور جانور ، اور بہت سے انسان بھی ۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر عذاب طے ہوچکا ہے ۔ اور جسے اللہ ذلیل کردے ، کوئی نہیں ہے جو اسے عزت دے سکے ۔ یقینا اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔
کیا تم نے نہ دیکھا ( ف٤۵ ) کہ اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے ( ف٤٦ ) اور بہت آدمی ( ف٤۷ ) اور بہت وہ ہیں جن پر عذاب مقرر ہوچکا ( ف٤۸ ) اور جسے اللہ ذلیل کرے ( ف٤۹ ) اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک اللہ جو چاہے کرے ، ( السجدة ) ٦
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں 30 وہ سب جو آسمانوں میں ہیں 31 اور جو زمین میں ہیں؟ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان 32 اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ 33 اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے 34 ، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے ۔ 35 5 السجدة
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ ہی کے لئے ( وہ ساری مخلوق ) سجدہ ریز ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج ( بھی ) اور چاند ( بھی ) اور ستارے ( بھی ) اور پہاڑ ( بھی ) اور درخت ( بھی ) اور جانور ( بھی ) اور بہت سے انسان ( بھی ) ، اور بہت سے ( انسان ) ایسے بھی ہیں جن پر ( ان کے کفر و شرک کے باعث ) عذاب ثابت ہو چکا ہے ، اور اﷲ جسے ذلیل کر دے تو اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ہے ۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 24 ۔ 25 ، الجحل ، حاشیہ 41 ۔ 42 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :31 یعنی فرشتے ، اَجرام فلکی ، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات ، نباتات ، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :32 یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے ، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے ، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے ۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :33 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا ۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے ۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے ۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے ۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے ، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی ۔ کسی فرشتے ، کسی جن ، کسی نبی اور ولی ، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جا سکے ، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکے ۔ کسی قانون بے حاکم اور فطرت بے صانع اور نظام بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے اور قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں ۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :34 یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے ، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے ۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے ، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے ، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے ۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سرفراز کردے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :35 یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے ، اور سورہ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 157 ۔
چاند سورج ستارے سب سجدہ ریز ۔ مستحق عبادت صرف وحدہ لاشریک اللہ ہے اس کی عظمت کے سامنے ہر چیز سر جھکائے ہوئے ہے خواہ بخوشی خواہ بےخوشی ۔ ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن نے سائے کا دائیں بائیں اللہ کے سامنے سربہ سجود ہونا بھی آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48؀ ) 16- النحل:48 ) میں بیان فرمایا ہے ۔ آسمانوں کے فرشتے ، زمین کے حیوان ، انسان ، جنات ، پرند ، چرند ، سب اس کے سامنے سربہ سجود ہیں اور اس کی تسبیح اور حمد کررہے ۔ سورج چاند ستارے بھی اس کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں ۔ ان تینوں چیزوں کو الگ اس لئے بیان کیا گیا کہ بعض لوگ ان کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ وہ خود اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اسے لئے فرمایا سورج چاند کو سجدے نہ کرو اسے سجدے کرو جو ان کا خالق ہے بخاری ومسلم میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ کو علم ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔ آپ نے فرمایا یہ عرش تلے جاکر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر اس سے اجازت طلب کرتا ہے وقت آرہا ہے کہ اس سے ایک دن کہہ دیا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا ۔ سنن ابی داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، اور مسند احمد میں گرہن کی حدیث میں ہے کہ سورج چاند اللہ کی مخلوق ہے وہ کسی کی موت پیدائش سے گرہن میں نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی میں سے جس کس پر تجلی ڈالتا ہے تو وہ اس کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج چاند اور کل ستارے غروب ہو کر سجدے میں جاتے ہیں اور اللہ سے اجازت مانگ کر داہنی طرف سے لوٹ کر پھر اپنے مطلع میں پہنچتے ہیں ۔ پہاڑوں اور درختوں کا سجدے میں ان کے سائے کا دائیں بائیں پڑنا ہے ۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ میں جب سجدے میں گیا تو وہ درخت بھی سجدے میں گیا اور میں نے سنا کہ وہ اپنے سجدے میں یہ پڑھ رہا تھا ۔ دعا ( اللہم اکتب لی بہا عندک اجرا وضع عنی بہا وزرا واجعلہا لی عندک ذخرا و تقبلہا منی کماتقبلتہامن عبدک ) داود ۔ یعنی اے اللہ اس سجدے کی وجہ سے میرے لئے اپنے پاس اجروثواب لکھ اور میرے گناہ معاف فرما اور میرے لئے اسے ذخیرہ آخرت کر اور اسے قبول فرما جسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کا سجدہ قبول فرمایا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی ۔ سجدہ کیا اور یہی دعا آپ نے اپنے اس سجدے میں پڑھی جسے میں سن رہا تھا ( ترمذی وغیرہ ) تمام حیوانات بھی اسے سجدہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے جانور کی پیٹھ کو اپنا منبر نہ بنا لیا کرو بہت سی سواریاں اپنے سوار سے زیادہ اچھی ہوتی ہیں اور زیادہ ذکر اللہ کرنے والی ہوتی ہیں اور اکثر انسان بھی اپنی خوشی سے عبادت الٰہی بجا لاتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں ہاں وہ بھی ہیں جو اس سے محروم ہیں تکبر کرتے ہیں ۔ سرکشی کرتے ہیں اللہ جسے ذلیل کرے اسے عزیز کون کرسکتا ہے ؟ رب فاعل خودمختار ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا یہاں ایک شخص ہے جو اللہ کے ارادوں اور اس کی مشیت کو نہیں مانتا ۔ آپ نے اسے فرمایا اے شخض بتا تیری پیدائش اللہ تعالیٰ نے تیری چاہت کے مطابق کی یا اپنی ؟ اس نے کہا اپنی چاہت کے مطابق ۔ فرمایا یہ بھی بتا کہ جب تو چاہتا ہے مریض ہو جاتا ہے یا جب اللہ چاہتا ہے ؟ اس نے کہا جب وہ چاہتا ہے ۔ پوچھا پھر تجھے شفا تیری چاہت سے ہوتی ہے یا اللہ کے ارادے سے ؟ جواب دیا اللہ کے ارادے سے ۔ فرمایا اچھا یہ بھی بتاکہ اب وہ جہاں چاہے گا تجھے لے جائے گا یا جہاں تو چاہے گا ؟ کہاجہاں وہ چاہے ۔ فرمایا پھر کیا بات باقی رہ گئی ؟ سن اگر تو اس کے خلاف جواب دیتا تو واللہ میں تیرا سراڑادیتا ۔ مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب انسان سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہٹ کر رونے لگتا ہے کہ افسوس ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا اس نے سجدہ کرلیا جنتی ہوگیا میں نے انکار کردیا جہنمی بن گیا ۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ حج کو اور تمام سورتوں پر یہ فضیلت ملی کہ اس میں دو آیتیں سجدے کی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جو ان دونوں پر سجدہ نہ کرے اسے چاہے کہ اسے پڑھے ہی نہیں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث قوی نہیں لیکن امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول قابل غور ہے کیونکہ اس کے راوی ابن لہیہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سماعت کی اس میں تصریح کردی ہے اور ان پر بڑی جرح وتدلیس کی ہے جو اس سے اٹھ جاتی ہے ۔ ابو داؤد میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ سورۃ حج کو قرآن کی اور سورتوں پر یہ فضیلت دی گئی ہے اس میں دوسجدے ہیں ۔ امام ابو داؤد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سند سے تو یہ حدیث مستند نہیں لیکن اور سند سے یہ مسند بھی بیان کی گئی ہے مگر صحیح نہیں ۔ مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیبہ میں اس سورت کی تلاوت کی اور دوبار سجدہ کیا اور فرمایا اسے ان سجدوں سے فضیلت دی گئی ۔ ( ابوبکر بن عدی ) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ، تین مفصل میں دو سورۃ حج میں ۔ ( ابن ماجہ وغیرہ ) یہ سب روایتیں اس بات کو پوری طرح مضبوط کردیتی ہیں ۔