Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَاِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰهِيۡمَ مَكَانَ الۡبَيۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِكۡ بِىۡ شَيۡـًٔـا وَّطَهِّرۡ بَيۡتِىَ لِلطَّآٮِٕفِيۡنَ وَالۡقَآٮِٕمِيۡنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوۡدِ‏ ﴿26﴾
اور جبکہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا ۔
و اذ بوانا لابرهيم مكان البيت ان لا تشرك بي شيا و طهر بيتي للطاىفين و القاىمين و الركع السجود
And [mention, O Muhammad], when We designated for Abraham the site of the House, [saying], "Do not associate anything with Me and purify My House for those who perform Tawaf and those who stand [in prayer] and those who bow and prostrate.
Aur jabkay hum ney ibrahim ( alh-e-salam ) ko kaba kay makan ki jagah muqarrar kerdi iss shart per kay meray sath kissi ko shareek na kerna aur meray ghar ko tawaf qayam rukoo sajda kerney walon kay liye pak saaf rakhna.
اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر ( یعنی خانہ کعبہ ) کی جگہ بتا دی تھی ۔ ( ١٤ ) ( اور یہ ہدایت دی تھی کہ ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ، اور میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو ( یہاں ) طواف کریں ، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں ، اور رکوع سجدے بجا لائیں ۔
اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا ( ف٦٤ ) اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ ( ف٦۵ ) طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے ( ف٦٦ )
یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے لیے اس گھر ﴿خانہ کعبہ﴾ کی جگہ تجویز کی تھی ( اس ہدایت کے ساتھ﴾ کہ ” میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ، 45
اور ( وہ وقت یاد کیجئے ) جب ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے لئے بیت اﷲ ( یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر ) کی جگہ کا تعین کر دیا ( اور انہیں حکم فرمایا ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو ( تعمیر کرنے کے بعد ) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھنا
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :45 بعض مفسرین نے پاک رکھو پر اس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور حج کے لیے اذن عام دے دو کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مانا ہے ۔ لیکن انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ہی کی طرف ہے اور اسی حکم کا ایک حصہ ہے جو ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا ۔ علاوہ بریں مقصود کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اول روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذن عام تھا ۔
مسجد حرام کی اولین بنیاد توحید یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کردیا ۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ علیہ السلام ہیں سب سے پہلے آپ نے ہی اسے بنایا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ فرمایا مسجد حرام ۔ میں نے کہا پھر؟ فرمایا بیت المقدس ۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے؟ فرمایا چالیس سال کا ۔ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ 96؀ۚ ) 3-آل عمران:96 ) ، دو آیتوں تک ۔ اور آیت میں ہے ہم نے ابراہیم واسماعیل علیہ السلام سے وعدہ کرلیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا الخ بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لئے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمایا اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کردے ان کے لئے جو موحد ہیں ۔ طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے ۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام ، رکوع ، سجدے ، کا ذکر فرمایا اس لئے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہوجائے گی واللہ اعلم ۔ اور یہ حکم ملاکہ اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا ۔ مذکور ہے کہ آپ نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی؟ جواب ملاکہ آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے ۔ آپ نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ لوگو! تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو ۔ پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی ۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی ۔ ہرپتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا ۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے ، واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے ۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لئے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لئے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا ۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا ۔ اس لئے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے ۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پاپیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اقتدا ہے پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لئے آئیں گے خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت ( فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم ) لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کردے ۔ آج دیکھ لو وہ کونسا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے )