Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ الَّذِىۡ جَعَلۡنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اۨلۡعَاكِفُ فِيۡهِ وَالۡبَادِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّرِدۡ فِيۡهِ بِاِلۡحَـادٍۢ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡهُ مِنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ‏ ﴿25﴾
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے مساوی کر دیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ۔
ان الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام الذي جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد و من يرد فيه بالحاد بظلم نذقه من عذاب اليم
Indeed, those who have disbelieved and avert [people] from the way of Allah and [from] al-Masjid al-Haram, which We made for the people - equal are the resident therein and one from outside; and [also] whoever intends [a deed] therein of deviation [in religion] or wrongdoing - We will make him taste of a painful punishment.
Jin logon ney kufur kiya aur Allah ki raah rokney lagay aur uss hurmat wali masjid say bhi jissay hum ney tamam logon kay liye masavi ker diya hai wahin kay rehney walay hon ya bahir kay hon jo bhi zulm kay sath wahan ilhaad ka irada keray hum ussay dard-naak azab chakhayen gay.
بیشک وہ لوگ ( سزا کے لائق ہیں ) جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے اور جو دوسروں کو اللہ کے راستے سے اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے لوگوں کے لیے ا یسا بنایا ہے کہ اس میں وہاں کے باشندے اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں ۔ ( ١٢ ) اور جو کوئی شخص اس میں ظلم کر کے ٹیڑھی راہ نکالے گا ، ( ١٣ ) ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔
بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور روکتے ہیں اللہ کی راہ ( ف٦۱ ) اور اس ادب والی مسجد سے ( ف٦۲ ) جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے مقرر کیا کہ اس میں ایک سا حق ہے وہاں کے رہنے والے اور پردیسی کا ، اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ( ف٦۳ )
جن لوگوں نے کفر کیا 41 اور جو ﴿آج﴾ اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اس مسجد حرام کی زیارت میں مانع ہیں 42 جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے ، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں 43 ﴿ان کی روش یقینا سزا کی مستحق ہے﴾ ۔ اس ﴿مسجد حرام﴾ میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا 44 اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے ۔ ؏ 3
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ( دوسروں کو ) اﷲ کی راہ سے اور اس مسجدِ حرام ( کعبۃ اﷲ ) سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لئے یکساں بنایا ہے اس میں وہاں کے باسی اور پردیسی ( میں کوئی فرق نہیں ) ، اور جو شخص اس میں ناحق طریقہ سے کج روی ( یعنی مقررہ حدود و حقوق کی خلاف ورزی ) کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :41 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ ان سے مراد کفار مکہ ہیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :42 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروؤں کو حج اور عمرہ نہیں کرنے دیتے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :43 یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائیداد نہیں ہے ، بلکہ وقف عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ یہاں فقہی نقطہ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں : اول یہ کہ مسجد حرام سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف ، مسجد یا پورا حرم مکہ ؟ دوم یہ کہ اس میں عاکف ( رہنے والے ) اور باد ( باہر سے آنے والے ) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم ، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ : یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احداً طاف بھٰذا البیت او صلی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار ۔ اے اولاد عبد مناف ، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہو اسے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے ۔ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجد حرام سے پورا حرم مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے ۔ کیونکہ مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے ، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صفوان بن امیہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا ۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں ۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے ۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے ، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی ، مزولفہ ، عرفات ، سب مناسک حج کے مقامات ہیں ۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے ۔ مثلاً فرمایا : وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ ، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے ۔ ( بقرہ ۔ آیت 217 ) ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالا نہیں بلکہ مکہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا : ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، یہ رعایت اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ( البقرہ ۔ آیت 196 ) ۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے نہ کہ محض مسجد ۔ لہٰذا مسجد حرام میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں قرار دیا جا سکتا ، بلکہ یہ حرم مکہ میں مساوات ہے ۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے ، بلکہ حرم مکہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے ۔ یہ سر زمین خدا کی طرف سے وقف عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوق ملکیت نہیں ہیں ۔ ہر شخص ہر جگہ پھر سکتا ہے ، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اٹھا سکتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً عبداللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا نُبَاع رباعھا ولا تؤاجر بیوتھا ، مکہ مسافروں کے اترنے کی جگہ ہے ، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں ۔ ابراہیم نخعی کی مرسل روایت کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے ۔ ( واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں ، کیونکہ ان کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ) مجاہد نے بھی تقریباً ان ہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے ۔ عَلْقَمہ بن نضْلَہ کی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکے کی زمینیں سوائب ( افتادہ زمینیں یا شاملات ) سمجھی جاتی تھیں ، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھہرا دیتا تھا ۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے ۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہاں پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھہرے ۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سہیل بن عمرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول کہ جو شخص مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں ۔ مکہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز کا فرمان امیر مکہ کے نام کہ مکے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے ۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں ، اور فقہا میں سے امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، سفیان ثوری ، امام احمد بن حنبل ، اور اسحاق بن رَاھَوَیہ کی بھی یہی رائے ہے کہ اراضی مکہ کی بیع ، اور کم از کم موسم حج میں مکے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں ۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت ، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے ۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکان زمین اور مالکان مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لوٹیں ۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کے لیے ۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے ۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پائے ٹھہر جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :44 اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو ، نہ کہ کوئی خاص فعل ۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں ، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے ۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھانے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے ۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجہ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے ۔ مثلاً : حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو ، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو ، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے ، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا ۔ حرم کی یہ حیثیت حضرت ابراہیم کے زمانے سے چلی آتی ہے ، اور فتح مکہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اٹھائی گئی ، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی ۔ اور ان کا ارشاد ہے : وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِناً ، جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آگیا ۔ حضرت عمر ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں ۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہل حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا ۔ وہاں جنگ اور خونریزی حرام ہے ۔ فتح مکہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’‘ لوگو ، اللہ نے مکے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے ۔ کسی شخص کے لیے ، جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو ، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میری اس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھہرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے ۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا ، پھر آج اس کی حرمت اسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی ۔ وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا ، نہ خود رو گھاس اکھاڑی جا سکتی ہے ، نہ پرندوں اور دوسرے جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے ، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں کے جانور کو بھگا یا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے ۔ اس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے موذی جانور مستثنیٰ ہیں ۔ اور خودرو گھاس سے : اِذْ خر ، اور خشک گھاس مستثنیٰ کی گئی ہے ۔ ان امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں ۔ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھانا ممنوع ہے ، جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن القطۃ الحاج ، یعنی آپ نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا تھا ۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عمرے کی نیت سے آئے وہ احرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سے داخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں ۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بلا احرام داخل نہیں ہو سکتے ۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کا مؤید ہے ۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ احرام کی قید سے مستثنیٰ ہیں جن کو بار بار اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو ۔ باقی سب کو احرام بند جانا چاہیے ۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے ۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکہ میں بلا احرام داخل ہو سکتا ہے ، مگر جو حدود میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بلا احرام نہیں جا سکتا ۔ یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے ۔
مسجدالحرام سے روکنے والے اللہ تعالیٰ کافروں کے اس فعل کی تردید کرتا ہے جو وہ مسلمانوں کو مسجد الحرام سے روکتے تھے وہاں انہیں احکام حج ادا کرنے سے باز رکھتے تھے باوجود اس کے اولیاء اللہ کے ہونے کا دعوی کرتے تھے حالانکہ اولیاء وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہو اس سے معلوم ہوتا کہ یہ ذکر مدینے شریف کا ہے ۔ جیسے سورۃ بقرہ کی آیت ( یسألونک عن الشہر الحرام الخ ) ، میں ہے یہاں فرمایا کہ باوجود کفر کے پھر یہ بھی فعل ہے کہ اللہ کی راہ سے اور مسجد الحرام سے مسلمانوں کو روکتے ہیں جو درحقیقت اس کے اہل ہیں ۔ یہی ترتیب اس آیت کی ہے ( الذین امنوا وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ الخ ) ، یعنی ان کی صفت یہ ہے کہ ان کے دل ذکر اللہ سے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ مسجدالحرام جو اللہ نے سب کے لئے یکساں طور پر باحرمت بنائی ہے مقیم اور مسافر کے حقوق میں کوئی کمی زیادتی نہیں رکھی ۔ اہل مکہ مسجدالحرام میں اترسکتے ہیں اور باہر والے بھی ۔ وہاں کی منزلوں میں وہاں کے باشندے اور بیرون ممالک کے لوگ سب ایک ہی حق رکھتے ہیں ۔ اس مسئلے میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرمانے لگے مکے کی حویلیاں ملکیت میں لائی جاسکتی ہیں ۔ ورثے میں بٹ سکتی ہیں اور کرائے پر بھی دی جاسکتی ہیں ۔ دلیل یہ دی کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کل آپ اپنے ہی مکان میں اترے گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ عقیل نے ہمارے لئے کون سی حویلی چھوڑی ہے ؟ پھر فرمایا کافر مسلمان کا ورث نہیں ہوتا اور نہ مسلمان کافر کا ۔ اور دلیل یہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صفوان بن امیہ کامکان چار ہزار درہم میں خرید کر وہاں جیل خانہ بنایا تھا ۔ طاؤس اور عمرو بن دینار بھی اس مسئلے میں امام صاحب کے ہم نوا ہیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ورثے میں بٹ نہیں سکتے نہ کرائے پر دئیے جاسکتے ہیں ۔ اسلاف میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے مجاہد اور عطاکا یہی مسلک ہے ۔ اس کی دلیل ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے حضرت علقمہ بن فضلہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدیقی اور فاروقی خلافت میں مکے کی حویلیاں آزاد اور بےملکیت استعمال کی جاتی رہیں اگر ضرورت ہوتی تو رہتے ورنہ اوروں کو بسنے کے لئے دے دیتے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نہ تو مکہ شریف کے مکانوں کا بیچناجائز ہے نہ ان کا کرایہ لینا ۔ حضرت عطا بھی حرم میں کرایہ لینے کو منع کرتے تھے ۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ شریف کے گھروں کے دروازے رکھنے سے روکتے تھے کیونکہ صحن میں حاجی لوگ ٹھیرا کرتے تھے ۔ سب سے پہلے گھر کا دروازہ سہیل بن عمرو نے بنایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت انہیں حاضری کا حکم بھیجا انہوں نے آکر کہا مجھے معاف فرمایا جائے میں سوداگر شخص ہوں میں نے ضرورتاً یہ دروازے بنائے ہیں تاکہ میرے جانور میرے بس میں رہیں ۔ آپ نے فرمایا پھرخیر ہم اسے تیرے لئے جائز رکھتے ہیں ۔ اور روایت میں حکم فاروقی ان الفاظ میں مروی ہے کہ اہل مکہ اپنے مکانوں کے دروازے نہ رکھو تاکہ باہر کے لوگ جہاں چاہیں ٹھیریں ۔ عطا فرماتے ہیں شہری اور غیروطنی ان میں برابر ہیں جہاں چاہیں اتریں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکے شریف کے لوگ گھروں کا کرایہ کھانے والا اپنے پیٹ میں آگ بھرنے والا ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان کا مسلک پسند فرمایا یعنی ملکیت کو اور ورثے کو تو جائز بتایا ہاں کرایہ کو ناجائز کہا ہے اس سے دلیلوں میں جمع ہوجاتی ہے ۔ واللہ اعلم بالحاد میں با زائد ہے جیسے تنبت بالدہن میں ۔ اور اعشی کے شعر ( ضمنت برزق عیالنا ارماحنا الخ ) ، میں یعنی ہمارے گھرانے کی روزیاں ہمارے نیزوں پر موقوف ہیں الخ ، اور شعروں کے اشعار میں با کا ایسے موقعوں پر زائد آنا مستعمل ہوا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہاں کا فعل بہم کے معنی کا متضمن ہے اس لئے با کے ساتھ متعدی ہوا ہے ۔ الحاد سے مراد کبیرہ شرمناک گناہ ہے ۔ بظلم سے مراد قصدا ہے تاویل کی روسے نہ ہونا ہے ۔ اور معنی شرک کے غیر اللہ کی عبادت کے بھی کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ حرم میں اللہ کے حرام کئے ہوئے کام کو حلال سمجھ لینا جیسے گناہ قتل بےجا ظلم وستم وغیرہ ۔ ایسے لوگ درد ناک عذابوں کے سزاوار ہیں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ جو بھی یہاں برا کام کرے یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ غیروطنی لوگ جب کسی بدکام کا ارادہ بھی کرلیں تو بھی انہیں سزا ہوتی ہے چاہے اسے عملا نہ کریں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص عدن میں ہو اور حرم میں الحاد وظلم کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی اللہ اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائے گا ۔ حضرت شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس نے تو اس کو مرفوع بیان کیا تھا لیکن میں اسے مرفوع نہیں کرتا ۔ اس کی اور سند بھی ہے جو صحیح ہے اور موقوف ہونا بہ نسبت مرفوع ہونے کے زیادہ ٹھیک ہے عموما قول ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ہے ، واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کسی پر برائی کے صرف سے برائی نہیں لکھی جاتی لیکن اگر دور دراز مثلا عدن میں بیٹھ کر بھی یہاں کے کسی شخص کے قتل کا ارادہ کرے تو اللہ اسے دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہاں یا نہیں کہنے پر یہاں قسمیں کھانا بھی الحاد میں داخل ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اپنے خادم کو یہاں گالی دینا بھی الحاد میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے امیر شخص کا یہاں آکر تجارت کرنا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکے میں اناج کا بیچنا ۔ ابن حبیب بن ابو ثابت فرماتے ہیں گراں فروشی کے لئے اناج کو یہاں روک رکھنا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن انیس کے بارے میں اتری ہے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور ایک انصار کے ساتھ بھیجا تھا ایک مرتبہ ہر ایک اپنے اپنے نسب نامے پر فخر کرنے لگا اس نے غصے میں آکر انصاری کو قتل کردیا اور مکے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور دین اسلام چھوڑ بیٹھا ۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ جو الحاد کے بعد مکہ کی پناہ لے ۔ ان آثار سے گویہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام الحاد میں سے ہیں لیکن حقیقتا یہ ان سب سے زیادہ اہم بات ہے بلکہ اس سے بڑی چیز پر اس میں تنبیہہ ہے ۔ اسی لئے جب ہاتھی والوں نے بیت اللہ شریف کی خرابی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دئے جنہوں نے ان پر کنکریاں پھینک کر ان کا بھس اڑا دیا اور وہ دوسروں کے لئے باعث عبرت بنا دئے گئے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک لشکر اس بیت اللہ کے غزوے کے ارادے سے آئے گا جب وہ بیدا میں پہنچیں گے تو سب کے سب مع اول آخر کے دھنسادئے جائیں گے ، الخ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپ یہاں الحاد کرنے سے بچیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہاں ایک قریشی الحاد کرے گا اس کے گناہ اگر تمام جن وانس کے گناہوں سے تولے جائیں تو بھی بڑھ جائیں دیکھو خیال رکھو تم وہی نہ بن جانا ۔ ( مسند احمد ) اور روایت میں یہ بھی ہے کے نصیحت آپ نے انہیں حطیم میں بیٹھ کر کی تھی ۔