Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَهُدُوۡۤا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِ‌ ۖۚ وَهُدُوۡۤا اِلٰى صِرَاطِ الۡحَمِيۡدِ‏ ﴿24﴾
ان کی پاکیزہ بات کی رہنمائی کر دی گئی اور قابل صد تعریف راہ کی ہدایت کر دی گئی ۔
و هدوا الى الطيب من القول و هدوا الى صراط الحميد
And they had been guided [in worldly life] to good speech, and they were guided to the path of the Praiseworthy.
Unn ko pakeeza baat ki rehnumaee kerdi gaee aur qabil-e-sadd tareef raah ki rehnumee kerdi gaee.
اور ( وجہ یہ ہے کہ ) ان لوگوں کی رسائی پاکیزہ بات ( یعنی کلمہ توحید ) تک ہوگئی تھی ، اور وہ اس خدا کے راستے تک پہنچ گئے تھے جو ہر تعریف کا مستحق ہے ۔
اور انھیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی ( ف۵۹ ) اور سب خوبیوں سراہے کی راہ بتائی گئی ( ف٦۰ )
ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی 39 اور انھیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا ۔ 40
اور انہیں ( دنیا میں ) پاکیزہ قول کی ہدایت کی گئی اور انہیں ( اسلام کے ) پسندیدہ راستہ کی طرف رہنمائی کی گئی
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :39 اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں ، مگر مراد ہے وہ کلمہ طیبہ اور عقیدہ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر وہ مومن ہوئے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :40 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہمارے نزدیک یہاں سورے کا وہ حصہ ختم ہو جاتا ہے جو مکی دور میں نازل ہوا تھا ۔ اس حصے کا مضمون اور انداز بیان وہی ہے جو مکہ سورتوں کا ہوا کرتا ہے ، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصہ ، یا اس کا کوئی جز مدینے میں نازل ہوا ہو ۔ صرف آیت : ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ( یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے ) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگ بدر کے فریقین ہیں ، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو ۔ الفاظ عام ہیں ، اور سیاق عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اس نزاع عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی ۔ جنگ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورہ انفال میں تھی نہ کہ اس سورے میں اور اس سلسلہ کلام میں ۔ یہ طریق تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر ان کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا ۔ حالانکہ قرآن کا نظم کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے ۔