Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
لِّيَشۡهَدُوۡا مَنَافِعَ لَهُمۡ وَيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَ يَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ‌‌ ۚ فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآٮِٕسَ الۡفَقِيۡـرَ‏ ﴿28﴾
اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ ۔
ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله في ايام معلومت على ما رزقهم من بهيمة الانعام فكلوا منها و اطعموا الباىس الفقير
That they may witness benefits for themselves and mention the name of Allah on known days over what He has provided for them of [sacrificial] animals. So eat of them and feed the miserable and poor.
Apnay faeeday hasil kerney ko aajyen aur unn muqarrara dino mein Allah ka naam yaad keren unn chopayon per jo paltoo hain pus tum aap bhi khao aur bhookay faqeeron ko bhi khilao.
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں ، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں ۔ ( ١٥ ) چنانچہ ( مسلمانو ) ان جانورو ‎ںمیں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ ۔
تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں ( ف٦۹ ) اور اللہ کا نام لیں ( ف۷۰ ) جانے ہوئے دنوں میں ( ف۷۱ ) اس پر کہ انھیں روزی دی بےزبان چوپائے ( ف۷۲ ) تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ ( ف۷۳ )
تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ۱ُن کے لیے رکھے گئے ہیں ، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں ، ( 28 )
تاکہ وہ اپنے فوائد ( بھی ) پائیں اور ( قربانی کے ) مقررہ دنوں کے اندر اﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر ( ذبح کے وقت ) اﷲ کے نام کا ذکر بھی کریں ، پس تم اس میں سے خود ( بھی ) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو ( بھی ) کھلاؤ
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :48 اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں ۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا ۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی ، ان کی تہذیب ایک رہی ، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا ، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے ۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بدامنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے ۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آل عمران ، حواشی ، 80 ۔ 81 ۔ المائدہ ، حاشیہ 113 ۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گئے ۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا ۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہو گیا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :49 جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ، جیسا کہ سور انعام 142 ۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے ۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے ۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم جانور پر اللہ کا نام لینے کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے ۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے ۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا ۔ ایام معلومات ( چند مقرر دنوں ) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، ابراہیم نَخعی ، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر ( یعنی ، 10 ذی الحجہ ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ اس کی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نخعی ، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ، اور امام شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں ، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد ۔ اس کی تائید میں حضرات عمر ، علی ، ابن عمر ، ابن عباس ، انس بن مالک ، ابو ہریرہ ، سعید بن مُسیّت اور سعید بن حبیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ فقہاء میں سے سفیان ثوری ، امام مالک ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے ۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں ، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے ، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے ، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے ۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :50 بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں ، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے ۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب ۔ یہ رائے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کی ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں ۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ ابن جریر نے حسن بصری ، عطاء ، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ : فَکُلُوْا مِنْھَا ۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا: و اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ، جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو ( المائدہ ۔ آیت 2 ) اور : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ، پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ( الجمعہ ۔ آیت 10 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں ، اسے کھاؤ ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا ، دوست ، ہمسائے ، رشتہ دار ، خواہ محتاج نہ ہوں ، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے ۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے ۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا ، خود بھی کھانا ، مساکین کو بھی دینا ، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا ۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو ۔
دنیا اور آخرت کے فائدے دنیا اور آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے لئے آئیں ۔ اللہ کی رضا کے ساتھ ہی دنیاوی مفاد تجارت وغیرہ کا فائدہ اٹھائیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ١٩٨؁ ) 2- البقرة:198 ) موسم حج میں تجارت کرنا ممنوع نہیں ۔ مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا جہاد بھی نہیں ، بجز اس مجاہد کے عمل کے جس نے اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیا ہو ( صحیح بخاری ) میں نے اس حدیث کو اس کی تمام سندوں کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا اور پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں لا الہ اللہ اور الحمد اللہ بکثرت پڑھا کرو ۔ انہی دنوں کی قسم آیت ( ولیال عشر ) کی آیت میں ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں آیت ( وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ١٤٢؁ ) 7- الاعراف:142 ) سے بھی مراد یہی دن ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں بازار میں آتے اور تکبیر پکارتے ، بازار والے بھی آپ کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگتے ۔ ان ہی دس دنوں میں عرفہ کا دن ہے جس دن کے روزے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گذشتہ اور آئندہ دوسال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ( صحیح مسلم شریف ) ان ہی دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقرعید کا دن ہے جس کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے ۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں جیسے کہ حدیث شریف میں ہے ۔ یہ دس دن رمضان شریف کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں ۔ کیونکہ نماز روزہ صدقہ وغیرہ جو رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا ہے وہ سب ان دنوں میں بھی ہوتا ہے مزید برآں ان میں فریضہ حج ادا ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان شریف کے آخری دن افضل ہیں کیونکہ انہیں میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ تیسرے قول درمیانہ ہے کہ دن تو یہ افضل اور راتیں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی افضل ہیں ۔ اس قول کے مان لینے سے مختلف دلائل میں جمع ہوجاتی ہیں واللہ اعلم ۔ ایام معلومات کی تفسیر میں ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قربانی کا دن اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ حضرت ابن عمر اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ سے یہی مروی ہے اور ایک روایت سے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ بقرہ عید اور اس کے بعد کے دو دن ۔ اور ایام معدودات سے بقرہ عید اور اس کے بعد کے تین دن ۔ اس کی اسناد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک صحیح ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی اور اس سے پہلے کے قول کی تائید فرمان باری آیت ( عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ 28؀ۡ ) 22- الحج:28 ) سے ہوتی ہے کیونکہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی کے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرفے کا دن بقرہ عید کا دن اور اس کے بعد کا ایک دن ہے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے ۔ حضرت اسلم سے مروی ہے کہ مراد یوم نحر اور ایام تشریق ہیں بہیمتہ الانعام سے مراد اونٹ گائے اور بکری ہیں ۔ جیسے سورۃ الانعام کی آیت ( ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۭقُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ نَبِّـــــُٔـوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٤٣؀ۙ ) 6- الانعام:143 ) میں مفصل موجود ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اکثر بزرگوں کا مذہب ہے کہ یہ رخصت ہے یا استحباب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکالیا جائے پھر آپ نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا کھا لے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ۔ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کہ برخلاف مسلمانوں کو اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں کو اس گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں کا یہ حکم آیت ( وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ۭوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا Ą۝ ) 5- المآئدہ:2 ) کی طرح ہے یعنی جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ تو شکار کھیلو ۔ اور سورۃ جمعہ میں فرمان ہے آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 10؀ ) 62- الجمعة:10 ) جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حکم ہے شکار کرنے کا اور زمین میں روزی تلاش کرنے کے لئے پھیل جانے کا لیکن یہ حکم وجوبی اور فرضی نہیں اسی طرح اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی ضروری اور واجب نہیں ۔ امام ابن جریر بھی اس قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے دوحصے کردئیے جائیں ایک حصہ خود قربانی کرنے والے کا دوسرا حصہ فقیر فقراء کا ۔ بعض کہتے ہیں تین کرنے چاہیئں تہائی اپنا تہائی ہدیہ دینے کے لئے اور تہائی صدقہ کرنے کے لئے ۔ پہلے قول والے اوپر کی آیت کی سند لاتے ہیں اور دوسرے قول والے آیت ( وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 36؀ ) 22- الحج:36 ) کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا پورا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( البائس الفقیر ) سے مطلب وہ بےبس انسان ہے جو احتیاج ہونے پر بھی سوال سے بچتا ہو ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو دست سوال دارز نہ کرتا ہو ، کم بینائی والا ہو ، احکام حج پھر وہ احرام کھول ڈالے سر منڈوالیں کپڑے پہن لیں ، ناخن کٹوا ڈالیں ، وغیرہ احکام حج پورے کرلیں ۔ نذریں پوری کرلیں حج کی قربانی کی اور جو ہو ۔ پس جو شخص حج کے لئے نکلا اس کے ذمے طواف بیت اللہ ، طواف صفا مروہ ، عرفات کے میدان میں جانا ، مزدلفے کی حاضری ، شیطانوں کو کنکر مارنا وغیرہ سب کچھ لازم ہے ۔ ان تمام احکام کو پورے کریں اور صحیح طور پر بجا لائیں اور بیت اللہ شریف کا طواف کریں جو یوم النحر کو واجب ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حج کا آخری کام طواف ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ دس ذی الحجہ کو منی کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں ۔ پھر قربانی کی ، پھر سر منڈوایا ، پھر لوٹ کر بیت اللہ آکر طواف بیت اللہ کیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہو ۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کردی گئی ہے بیت العتیق کے لفظ سے استدلال کرکے فرمایا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کو حطیم بھی اپنے طواف کے اندر لے لینا چاہے ۔ اس لئے کہ وہ بھی اصل بیت اللہ شریف میں سے ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں یہ داخل تھا گو قریش نے نیا بناتے وقت اسے باہر چھوڑ دیا لیکن اس کی وجہ بھی خرچ کی کمی تھی نہ کہ اور کچھ ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا اور فرمایا بھی دیا کہ حطیم بیت اللہ شریف میں داخل ہے ۔ اور آپ نے دونوں شامی رکنوں کو ہاتھ نہیں لگایا نہ بوسہ دیا کیونکہ وہ بناء ابراہیمی کے مطابق پورے نہیں ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا ۔ پہلے اس طرح کی عمارت تھی کہ یہ اندر تھا اسی لئے اسے پرانا گھر کہا گیا یہی سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ طوفان نوح میں سلامت رہا ۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سرکش اس پر غالب نہیں آسکا ۔ یہ ان سب کی دستبرد سے آزاد ہے جس نے بھی اس سے برا قصد کیا وہ تباہ ہوا ۔ اللہ نے اسے سرکشوں کے تسلط سے آزاد کرلیا ہے ۔ ترمذی میں اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو حسن غریب ہے اور ایک اور سند سے مرسلاًبھی مروی ہے ۔