Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
لَـكُمۡ فِيۡهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الۡبَيۡتِ الۡعَتِيۡقِ‏ ﴿33﴾
ان میں تمہارے لئے ایک مقررہ وقت تک فائدہ ہے پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ ہے ۔
لكم فيها منافع الى اجل مسمى ثم محلها الى البيت العتيق
For you the animals marked for sacrifice are benefits for a specified term; then their place of sacrifice is at the ancient House.
Inn mein tumharay liye aik muqarrara waqt tak faeeda hai phir inn kay halal honey ki jagah khan-e-kaaba hai.
تمہیں ایک معین وقت تک ان ( جانوروں سے ) فوائد حاصل کرنے کا حق ہے ۔ ( ٢٠ ) پھر ان کے حلال ہونے کی منزل اسی قدیم گھر ( یعنی خانہ کعبہ ) کے آس پاس ہے ۔
تمہارے لیے چوپایوں میں فائدے ہیں ( ف۸٤ ) ایک مقررہ میعاد تک ( ف۸۵ ) پھر ان کا پہنچنا ہے اس آزاد گھر تک ( ف۸٦ )
تمہیں ایک وقت مقرر تک ان ﴿ہدی کے جانوروں﴾ سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ، 62 پھر ان ﴿کے قربان کرنے﴾ کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے ۔ 63 ؏ 4
تمہارے لئے ان ( قربانی کے جانوروں ) میں مقررہ مدت تک فوائد ہیں پھر انہیں قدیم گھر ( خانہ کعبہ ) کی طرف ( ذبح کے لئے ) پہنچنا ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :62 پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھہرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں ، جیسا کہ اہل عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ ، اور ان بدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ بدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سواری کرنا ، یا سامان لادنا ، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا ۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے ۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا ۔ اسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف نہیں ہے ۔ یہی بات ان احادیث سے معلوم ہوتی ہے جو اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت اَنَس سے مروی ہیں ۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جارہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے ۔ آپ نے فرمایا اس پر سوار ہو جا ۔ اس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے ۔ آپ نے فرمایا ارے سوار ہو جا ۔ مفسرین میں سے ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد ، ضحاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ایک وقت مقرر تک سے مراد جب تک کہ جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے ہے ۔ اس تفسیر کی رو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہدی کے نام سے موسوم نہ کر دے ۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے ، پھر اسے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رہتا ۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح نہیں معلوم ہوتی ۔ اول تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی بے معنی ہے ۔ کیونکہ ہدی کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر شعائر اللہ کا اطلاق ہو ، اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے ۔ دوسرے مفسرین ، مثلاً عُروہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وقت مقرر سے مراد قربانی کا وقت ہے ۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں ، ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں اور ان کا اون ، صوف ، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ حنیفہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں ، لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرط ضرورت استفادہ جائز ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :63 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ھَدْیاً بَالِغَ الْکَعْبَۃِ ( المائدہ ۔ آیت 95 ) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر ، یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے ، بلکہ حرم کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے ۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ ، یا بیت اللہ ، یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرم مکہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت ۔