Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَّاَصۡحٰبُ مَدۡيَنَ‌ۚ وَكُذِّبَ مُوۡسٰى فَاَمۡلَيۡتُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ثُمَّ اَخَذۡتُهُمۡ‌ۚ فَكَيۡفَ كَانَ نَكِيۡرِ‏ ﴿44﴾
اور مدین والے بھی اپنے اپنے نبیوں کو جھٹلا چکے ہیں ۔ موسیٰ ( علیہ السلام ) بھی جھٹلائے جا چکے ہیں پس میں نے کافروں کو یوں ہی سی مہلت دی پھر دھر دبایا پھر میرا عذاب کیسا ہوا ؟
و اصحب مدين و كذب موسى فامليت للكفرين ثم اخذتهم فكيف كان نكير
And the inhabitants of Madyan. And Moses was denied, so I prolonged enjoyment for the disbelievers; then I seized them, and how [terrible] was My reproach.
Aur madiyan walay bhi apnay apnay nabiyon ko jhutla chukay hain. Musa ( alh-e-salam ) bhi jhutlaye ja chukay hain pus mein ney kafiron ko yun hi si mohlat di phir dhar dabaya phir mera azab kaisa hua?
اور مدین کے لوگ بھی ، اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا تھا ، چنانچہ ان کافروں کو میں نے کچھ ڈھیل دی ، پھر انہیں پکڑ میں لے لیا ، اب دیکھ لو کہ میری پکڑ کیسی تھی ۔
اور مدین والے ( ف۱۱۷ ) اور موسیٰ کی تکذیب ہوئی ( ف۱۱۸ ) تو میں نے کافروں کو ڈھیل دی ( ف۱۱۹ ) پھر انھیں پکڑا ( ف۱۲۰ ) تو کیسا ہوا میرا عذاب ( ف۱۲۱ )
اور اہل مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسی ( علیہ السلام ) بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ۔ ان سب منکرین حق کو میں نے پہلے مہلت دی ، پھر پکڑ لیا ۔ 88 اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی ۔ 89
اور باشندگانِ مدین نے ( بھی جھٹلایا تھا ) اور موسٰی ( علیہ السلام ) کو بھی جھٹلایا گیا سو میں ( ان سب ) کافروں کو مہلت دیتا رہا پھر میں نے انہیں پکڑ لیا ، پھر ( بتائیے ) میرا عذاب کیسا تھا
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :88 یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا ، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے ۔ اسی طرح کفار مکہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔ درحقیقت یہ مہلت غور و فکر ہے جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :89 اصل میں لفظ نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا ۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے ۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اس کو ایسی سزا دی جائے جو اس کی حالت دگرگوں کر دے ۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے ۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ یہ وہی شخص ہے ۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی ۔