Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَلَا يَزَالُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡهُ حَتّٰى تَاۡتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغۡتَةً اَوۡ يَاۡتِيَهُمۡ عَذَابُ يَوۡمٍ عَقِيۡمٍ‏ ﴿55﴾
کافر اس وحی الٰہی میں ہمیشہ شک شبہ ہی کرتے رہیں گے حتٰی کہ اچانک ان کے سروں پر قیامت آجائے یا ان کے پاس اس دن کا عذاب آجائے جو منحوس ہے ۔
و لا يزال الذين كفروا في مرية منه حتى تاتيهم الساعة بغتة او ياتيهم عذاب يوم عقيم
But those who disbelieve will not cease to be in doubt of it until the Hour comes upon them unexpectedly or there comes to them the punishment of a barren Day.
Kafir iss wahee-e-elahee mein hamesha shak-o-shuba hi kertay rahen gay hatta kay achanak unn kay saron per qayamat aajaye ya unn kay pass uss din ka azab aajaye jo manhoos hai.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اس ( کلام ) کی طرف سے برابر شک ہی میں پڑے رہیں گے ، یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آجائے ، یا ایسے دن کا عذاب ان تک آپہنچے جو ( ان کے لیے ) کسی بھلائی کو جنم دینے کی صلاحیت سے خالی ہوگا ۔
اور کافر اس سے ( ف۱٤۷ ) ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر قیامت آجائے اچانک ( ف۱٤۸ ) یا ان پر ایسے دن کا عذاب آئے جس کا پھل ان کے لیے کچھ اچھا نہ ہو ( ف۱٤۹ )
انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے ، یا ایک منحوس دن 102 کا عذاب نازل ہو جائے ۔
اور کافر لوگ ہمیشہ اس ( قرآن ) کے حوالے سے شک میں رہیں گے یہاں تک کہ اچانک ان پر قیامت آپہنچے یا اس دن کا عذاب آجائے جس سے نجات کا کوئی امکان نہیں
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :102 اصل میں لفظ عَقِیْم استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ بانجھ ہے ۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کارگر نہ ہو ، ہر کوشش الٹی پڑے ، اور ہر امید مایوسی میں تبدیل ہو جائے ۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو ۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہو جائے ۔ مثلاً جس روز قوم نوح پر طوفان آیا ، وہ اس کے لیے بانجھ دن تھا ۔ اسی طرح عاد ، ثمود ، قوم ، لوط ، اہل مَدْیَن ، اور دوسری سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذاب الہٰی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہو ۔ کیونکہ اس امروز کا کوئی چارہ گری ان کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے ۔
کافروں کے دل سے شک وشبہ نہیں جائے گا یعنی کافروں کو جوشک شبہ اللہ کی اس وحی یعنی قرآن میں ہے وہ ان کے دلوں سے نہیں جائے گا ۔ شیطان یہ غلط گمان قیامت تک ان کے دلوں سے نہ نکلنے دے گا ۔ قیامت اور اس کے عذاب ان کے پاس ناگہاں آجائیں گے ۔ اس وقت یہ محض بےشعور ہوں گے جو مہلت انہیں مل رہی ہے اس سے یہ مغرور ہوگئے ۔ جس قوم کے پاس اللہ کے عذاب آئے اسی حالت میں آئے کہ وہ ان سے نڈر بلکہ بےپروا ہوگئے تھے اللہ کے عذابوں سے غافل وہی ہوتے ہیں جو پورے فاسق اور اعلانیہ مجرم ہوں ۔ یا انہیں بےخبر دن عذاب پہنچے جو دن ان کے لئے منحوس ثابت ہوگا ۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد یوم بدر ہے اور بعض نے کہا ہے مراد اس سے قیامت کا دن ہے یہی قول صحیح ہے گو بدر کا دن بھی ان کے لئے عذاب اللہ کا دن تھا ۔ اس دن صرف اللہ کی بادشاہت ہوگی جیسے اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے ۔ اور آیت میں ہے اس دن رحمن کا ہی ملک ہوگا اور وہ دن کافروں پر نہایت ہی گراں گزرے گا ۔ فیصلے خود اللہ کرے گا ۔ جن کے دلوں میں اللہ پر ایمان رسول کی صداقت اور ایمان کے مطابق جن کے اعمال تھے جن کے دل اور عمل میں موافقت تھی ۔ جن کی زبانیں دل کے مانند تھیں وہ جنت کی نعمتوں میں مالا مال ہوں گے جو نعمتیں نہ فنا ہوں نہ گھٹیں نہ بگڑیں نہ کم ہوں ۔ جن کے دلوں میں حقانیت سے کفر تھا ، جو حق کو جھٹلاتے تھے ، نبیوں کے خلاف کرتے تھے ، اتباع حق سے تکبر کرتے تھے ان کے تکبر کے بدلے انہیں ذلیل کرنے والے عذاب ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ 60؀ۧ ) 40-غافر:60 ) جو لوگ میری عبادتوں سے سرکشی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔