Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَجَاهِدُوۡا فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ‌ؕ هُوَ اجۡتَبٰٮكُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ مِنۡ حَرَجٍ‌ؕ مِلَّةَ اَبِيۡكُمۡ اِبۡرٰهِيۡمَ‌ؕ هُوَ سَمّٰٮكُمُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِىۡ هٰذَا لِيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَهِيۡدًا عَلَيۡكُمۡ وَتَكُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ‌ ‌ۖۚ فَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰهِؕ هُوَ مَوۡلٰٮكُمۡ‌ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰى وَنِعۡمَ النَّصِيۡرُ‏ ﴿78﴾
اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی ، دین اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قائم رکھو اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ ۔ پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو وہی تمہارا ولی اور مالک ہے ۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے ۔
و جاهدوا في الله حق جهاده هو اجتبىكم و ما جعل عليكم في الدين من حرج ملة ابيكم ابرهيم هو سمىكم المسلمين من قبل و في هذا ليكون الرسول شهيدا عليكم و تكونوا شهداء على الناس فاقيموا الصلوة و اتوا الزكوة و اعتصموا بالله هو مولىكم فنعم المولى و نعم النصير
And strive for Allah with the striving due to Him. He has chosen you and has not placed upon you in the religion any difficulty. [It is] the religion of your father, Abraham. Allah named you "Muslims" before [in former scriptures] and in this [revelation] that the Messenger may be a witness over you and you may be witnesses over the people. So establish prayer and give zakah and hold fast to Allah . He is your protector; and excellent is the protector, and excellent is the helper.
Aur Allah ki raah mein wesa hi jihad kero jesay jihad ka haq hai ussi ney tumhen bargazeedah banaya hai aur tum per deen kay baray mein koi tangi nahi daali deen apnay baap ibrahim ( alh-e-salam ) ka qaeem rakho ussi Allah ney tumhara naam musalman rakha hai iss quran say pehlay aur iss mein bhi takay payghumbar tum per gawah hojaye aur tum tamam logon kay gawah bann jao. Pus tumhen chahiye kay namazen qaeen rakho aur zakat ada kertay raho aur Allah ko mazboor thaam lo wohi tumhara wali aur malik hai. Pus kiya hi acha malik hai aur kitna hi behtar madadgar hai.
اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو ، جیسا کہ جہاد کا حق ہے ۔ ( ٣٥ ) اس نے تمہیں ( اپنے دین کے لیے ) منتخب کرلیا ہے ، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کو مضبوطی سے تھام لو ، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا ، اور اس ( قرآن ) میں بھی ، تاکہ یہ رسول تمہارے لیے گواہ بنیں ، اور تم دوسرے لوگوں کے لیے گواہ بنو ۔ ( ٣٦ ) لہذا نماز قائم کرو ، اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، وہ تمہارا رکھوالا ہے ، دیکھو ، کتنا اچھا رکھوالا ، اور کتنا اچھا مددگار ۔
اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا ( ف۱۹۸ ) اس نے تمہیں پسند کیا ( ف۱۹۹ ) اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی ( ف۲۰۰ ) تمہارے باپ ابراہیم کا دین ( ف۲۰۱ ) اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو ( ف۲۰۲ ) اور تم اور لوگوں پر گواہی دو ( ف۲۰۳ ) تو نماز برپا رکھو ( ف۲۰٤ ) اور زکوٰة دو اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو ( ف۲۰۵ ) وہ تمہارا مولیٰ ہے تو کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار ،
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ۔ 128 اس نے تمہیں اپنے کام کےلیے چن لیا ہے 129 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ 130 قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کی ملت پر 131 ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ” مسلم ” رکھا تھا اور اس ﴿قرآن﴾ میں بھی ﴿تمہارا یہی نام ہے 132 ﴾ ۔ تاکہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ۔ 133 پس نماز قائم کرو ، زکوة دو ، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ ۔ 134 وہ ہے تمہارا مولی ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولی اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار ۔ ؏ 10
اور اﷲ ( کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت ) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے ۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ ( یہی ) تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا دین ہے ۔ اس ( اﷲ ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ، اس سے پہلے ( کی کتابوں میں ) بھی اور اس ( قرآن ) میں بھی تاکہ یہ رسولِ ( آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ ، پس ( اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لئے ) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ ( کے دامن ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، وہی تمہارا مددگار ( و کارساز ) ہے ، پس وہ کتنا اچھا کارساز ( ہے ) اور کتنا اچھا مددگار ہے
سوْرَةُ الْحَجّ حاشیہ نمبر :128 جہاد سے مراد محض قتال ( جنگ ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جد و جہد مطلوب ہے ۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جد و جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے ۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے ، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے ۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر ۔ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئےہو ۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ ۔ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :129 یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً ( آیت 143 ) ۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للِنَّاسِ ( آیت 110 ) ۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں ۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :130 یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں ۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں ۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو ۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ، یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ( اعراف ۔ آیت 157 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :131 اگرچہ اسلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم ۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے ۔ ان کی تاریخ ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی ، عیسائی ، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ ، سب متفق تھے ۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں ۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں ۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب ( موآب ) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا ۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے ۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی ۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیم علیہ السلام کو اختیار کرو ، تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم برحق اور برسر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی 134 ۔ 135 ۔ آل عمران ، حواشی 58 ۔ 79 ۔ جلد دوم ، النحل ، حاشیہ 120 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :132 تمہارا کا خطاب مخصوص طور پر صرف انہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جو اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے ، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید ، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی نوحی ، ابراہیمی ، موسوی ، مسیحی وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام مسلم ( اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ محمدی نہیں بلکہ مسلم ہیں ۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :133 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144 ۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ شہادت حق میں روشنی ڈالی ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :134 یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو ۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو ، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو ، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو ، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ ۔