Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۚ‏ ﴿77﴾
اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔
يايها الذين امنوا اركعوا و اسجدوا و اعبدوا ربكم و افعلوا الخير لعلكم تفلحون
O you who have believed, bow and prostrate and worship your Lord and do good - that you may succeed.
Aey eman walo! Rukoo sajda ketay raho aur apnay perwerdigar ki ibadat mein lagay raho aur nek kaam kertay raho takay tum kaamyaab hojao.
اے ایمان والو ! رکوع کرو ، اور سجدہ کرو ، اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو ، اور بھلائی کے کام کرو ، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ۔ ( ٣٤ )
اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو ( ف۱۹۵ ) اور اپنے رب کی بندگی کرو ( ف۱۹٦ ) اور بھلے کام کرو ( ف۱۹۷ ) اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو ، ( السجدة ) عندالشافعی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، رکوع اور سجدہ کرو ، اپنے رب کی بندگی کرو ، اور نیک کام کرو ، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو ۔ 127
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو ، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور ( دیگر ) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :127 یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے ۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا ، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں ۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پا سکتا ہے ۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو ۔ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے ۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے ۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو ، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے ، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے ۔ امام شافعی ، امام احمد ، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورہ حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، حسن بصری ، سعید بن المسیب ، سعید بن جبیر ، ابرہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں ۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں ۔ پہلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے ۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ : قلت یا رسول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین؟ قال نعم فمن لم یسجدھما فلا یقرأھما ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا سورہ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے ۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمر ، علی ، عثمان ، ابن عمر ، ابن عباس ، ابو الدرداء ، ابو موسیٰ اشعری اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے یہ بات منقول ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں ۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں ۔ خاص کر ابو المصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا ۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں ، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے ۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ : الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم ، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی ۔
سورہ حج کو دوسجدوں کی فضلیت حاصل ہے اس دوسرے سجدے کے بارے میں دو قول ہیں ۔ پہلے سجدے کی آیت کے موقعہ پر ہم نے وہ حدیث بیان کردی ہے جس میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ حج کو دو سجدوں سے فضیلت دی گئی جو یہ سجدے نہ کرے وہ یہ پڑھے ہی نہیں ۔ پس رکوع سجدہ عبادت اور بھلائی کا حکم کرکے فرماتا ہے ۔ امت مسلمہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت اپنے مال ، جان اور اپنی زبان سے راہ اللہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو ۔ جیسے حکم دیا ہے کہ اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کرلیا ہے ۔ اور امتوں پر تمہیں شرافت وکرامت عزت وبزرگی عطافرمائی ۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سربرآوردہ کیا ، تمہیں آسان ، سہل اور عمدہ دین دیا ۔ وہ احکام تم پر نہ رکھے وہ سختی تم پر نہ کی وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں جو تم پر گراں گزریں ۔ جنہیں تم بجا نہ لاسکو ۔ اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا ، رکن نماز ہے ۔ اسے دیکھئے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوں تو چار رکعت فرض اور پھر اگر سفر ہو تو وہ بھی دو ہی رہ جائیں ۔ اور خوف میں تو حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت وہ بھی سواری پر ہو تو اور پیدل ہو تو ، روبہ قلبہ ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو ، اسی طرح یہی حکم سفر کی نفل نماز کاہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری کے ساقط ہوجاتا ہے ۔ مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کرلے ۔ اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو کہ کس قدر ان میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھی ہیں ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے میں یک طرفہ اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔ جب آپ نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا تو خوشخبری سنانا ، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرناسختی نہ کرنا اور بھی اس مضمون کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ تمہارے دین میں کوئی تنگی وسختی نہیں ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ملتہ کا نصب بہ نزع خفض ہے گویا اصل میں کملتہ ابیکم تھا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ الزموا کو محذوف مانا جائے اور ملتہ کو اس کا مفعول قرار دیا جائے ۔ اس صورت میں یہ اسی آیت کی طرح ہوجائے گا دینا قیما الخ ، اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ۔ کیونکہ ان کی دعا تھی کہ ہم دونوں باپ بیٹوں کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو مسلمان بنادے ۔ لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ قول کچھ جچتا نہیں کہ پہلے سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے سے ہو اس لئے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امت کا نام اس قرآن میں مسلم نہیں رکھا ۔ پہلے سے کے لفظ کے معنی یہ ہیں کہ پہلی کتابوں میں ذکر میں اور اس پاک اور آخری کتاب میں ۔ یہی قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے اور یہی درست ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اس امت کی بزرگی اور فضیلت کا بیان ہے ان کے دین کے آسان ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر انہیں دین کی مزید رغبت دلانے کے لئے بتایا جارہا ہے کہ یہ دین وہ ہے جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام لے کر آئے تھے پھر اس امت کی بزرگی کے لئے اور انہیں مائل کرنے کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے ۔ مدتوں سے انبیاء کی آسمانی کتابوں میں تمھارے چرچے چلے آرہے ہیں ۔ سابقہ کتابوں کے پڑھنے والے تم سے خوب آگاہ ہیں پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے اور خود اللہ کا رکھا ہوا ہے ۔ نسائی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص جاہلیت کے دعوے اب بھی کرے ( یعنی باپ دادوں پر حسب نسب پر فخر کرے دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے ) وہ جہنم کا ایندھن ہے ۔ کسی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو ۔ یعنی مسلمین ، مومنین اور عباد اللہ ۔ سورۃ بقرہ کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21۝ۙ ) 2- البقرة:21 ) کی تفسیر میں ہم اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے تمہیں عادل عمدہ بہتر امت اسلئے بنایا ہے اور اس لئے تمام امتوں میں تمہاری عدالت کی شہرت کردی ہے کہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو ۔ تمام اگلی امتیں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی ۔ کہ اس امت کو اور تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے اس لئے ان کی گواہی اس پر معتبر مانی جائے گی ۔ اس بارے میں کہ اس کے رسولوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچایا ہے ، وہ تبلیغ کا فرض ادا کرچکے ہیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شہادت دیں گے کہ آپ نے انہیں دین پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کردیا ۔ اس بابت جتنی حدیثیں ہیں اور اس بارے کی جتنی تفسیر ہے وہ ہم سب کی سب سورۃ بقرہ کے سترھویں رکوع کی آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ١٤٣؁ ) 2- البقرة:143 ) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں ۔ اس لئے یہاں اسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہیں دیکھ لی جائے ۔ وہیں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی امت کا واقعہ بھی بیان کردیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکریہ تمہیں ضرور ادا کرنا چاہے ۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اللہ کے فرائض تم پر ہیں انہیں شوق خوشی سے بجا لاؤ خصوصا نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو ۔ جو کچھ اللہ نے واجب کیا ہے اسے دلی محبت سے بجالاؤ اور جو چیزیں حرام کردیں ہیں اس کے پاس بھی نہ پھٹکو ۔ پس نماز جو خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ جس میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے کہ امیر لوگ اپنے مال کا ایک حصہ فقیروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں ۔ ان کا کام چلتا ہے دل خوش ہوجاتا ہے ۔ اس میں بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے بہت آسانی ہے حصہ کم بھی ہے اور سال بھر میں ایک ہی مرتبہ ۔ زکوٰۃ کے کل احکام سورۃ توبہ کی آیت زکوٰۃ ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀ ) 9- التوبہ:60 ) کی تفسیر میں ہم نے بیان کردئے ہیں وہیں دیکھ لئے جائیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو ، اسی پر توکل کرو ، اپنے تمام کاموں میں اس کی امداد طلب کیا کرو ، ہر وقت اعتماد اس پر رکھو ، اسی کی تائید پر نظریں رکھو ۔ وہ تمہارا مولیٰ ہے ، تمہارا حافظ ہے ناصر ہے ، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے ، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی اور کی ولایت کی ضرورت نہیں ، سب سے بہتر والی وہی ہے سب سے بہتر مددگار وہی ہے ، تمام دنیا گو دشمن ہوجائے لیکن وہ سب قادر ہے اور سب سے زیادہ قوی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم اپنے غصے کے وقت تو مجھے یاد کرلیا کر ۔ میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معافی فرما دیا کروں گا ۔ اور جن پر میرا عذاب نازل ہوگا میں تجھے ان میں سے بچا لونگا ۔ برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبروضبط سے کام لے ، مجھ پر نگاہیں رکھ ، میری مدد پر بھروسہ رکھ میری امداد پر راضی رہ ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے اپنی امداد نصیب فرمائے آمین ) واللہ اعلم ۔