Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ‏ ﴿1﴾
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔
قد افلح المؤمنون
Certainly will the believers have succeeded:
Yaqeenan eman walon ney falah hasil kerli.
ان ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے ۔
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے
یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے 1
بیشک ایمان والے مراد پا گئے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :1 ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا ، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے ۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی ۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا ، اپنی مراد کو پہنچا ، آسودہ و خوشحال ہو گیا ، اس کی کو شش بار آور ہوئی ۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی ۔ قَدْ اَفْلَحَ یقیناً فلاح پائی آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے ۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا ۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں ۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی ۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے ۔ یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے ۔
دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی ، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر ، کم نہ کر ، ہمارا اکرام کر ، اہانت نہ کر ، ہمیں انعام عطافرما ، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے ، ہم پردوسروں کو پسند نہ فرما ، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے ۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں ۔ دعا ( الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا ۔ ) پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا ۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ، پھر ان آیتوں کی ( یحافظون ) ۔ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے ، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے ۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی ۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ( وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ḍ۝ۚ ) 59- الحشر:9 ) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پاگئے ، انہوں نے نجات پالی ۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو ، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے ( نسائی ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ آپ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل ، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72؀ ) 25- الفرقان:72 ) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئے سورۃ انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ١٤١؀ۙ ) 6- الانعام:141 ) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو ۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ḍ۝۽ ) 91- الشمس:9 ) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا ۔ یہی ایک قول آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ Č۝ۙ ) 41- فصلت:6 ) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں ۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں ۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں ۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا ۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے ۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی ۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا ۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ ( ١ ) جب بات کرے ، جھوٹ بولے ( ٢ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( ٣ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ( بخاری ومسلم ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقت ، رکوع ، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے ۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے ۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے ۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے ۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو ، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے ۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں ۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں ، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے ۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے ، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے ، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے ۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا ۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا ۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے ، جہنم سے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے ( تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63؁ ) 19-مريم:63 ) اسی جیسی آیت یہ بھی ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72؀ ) 43- الزخرف:72 ) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔