Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۙ‏ ﴿2﴾
جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔
الذين هم في صلاتهم خشعون
They who are during their prayer humbly submissive
Jo aoni namaz mein khusoo kertay hain.
جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں ۔ ( ١ )
جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ( ف۲ )
جو 2 اپنی نماز میں خشوع 3 اختیار کرتے ہیں ،
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :2 یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر درحقیقت فلاح پائی ہے ۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں ۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :3 خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا ، دب جانا ، اظہار عجز و انکسار کرنا ۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی ۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو ۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں ، نگاہ پست ہو جائے ، آواز دب جائے ، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو ۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : لو خشع قلبہ خشعت جوارحہ ، اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا ۔ اگرچہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا ۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مدد گار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کو کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیار خاص پر قائم رکھتے ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے ( زیادہ سے زیادہ صرف گوشہ چشم سے ادھر ادھر دیکھا جا سکتا ہے ۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے ، مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہنی چاہیے ) ۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے ۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا ، یا ان کو جھاڑنا ، یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے ۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یا سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے ۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا ، یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلاف ہے ۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے ۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت نا پسندیدہ ہے ۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل ، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے ۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے ، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا ، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے ۔ ان ظاہر آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے ۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفس انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے ۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے ۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آجائیں تو جس وقت بھی آدمی کو انکا احساس ہو اسی وقت اسے اپنی توجہ ان سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے ۔