Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
مَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِىۡ كُلِّ سُنۡۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ‌ؕ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿261﴾
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالٰی جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔
مثل الذين ينفقون اموالهم في سبيل الله كمثل حبة انبتت سبع سنابل في كل سنبلة ماة حبة و الله يضعف لمن يشاء و الله واسع عليم
The example of those who spend their wealth in the way of Allah is like a seed [of grain] which grows seven spikes; in each spike is a hundred grains. And Allah multiplies [His reward] for whom He wills. And Allah is all-Encompassing and Knowing.
Jo log apna maal Allah Taalaa ki raah mein kharach kertay hain uss ki misal uss daney jaisi hai jiss mein saat baliyan niklen aur her bali mein so daney hon aur Allah Taalaa jissay chahaye barha charha ker dey aur Allah Taalaa kushadgi wala aur ilm wala hai.
جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے ( اور ) ہر بال میں سو دانے ہوں ( ١٧٨ ) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( ثواب میں ) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے ، اللہ بہت وسعت والا ( اور ) بڑے علم والا ہے ۔
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ( ف۵٤۷ ) اس دانہ کی طرح جس نے اگائیاں سات بالیں ( ف۵٤۸ ) ہر بال میں سو دانے ( ف۵٤۹ ) اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ،
298 جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں 299 ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں ۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ، افزونی عطا فرماتا ہے ۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔ 300
جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ( اس ) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں ( اور پھر ) ہر بالی میں سو دانے ہوں ( یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں ) ، اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے ( اس سے بھی ) اضافہ فرما دیتا ہے ، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :298 ”اب پھر سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے ، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا ۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصد عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو ۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اس کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے ، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صرف کرنے لگے ۔ مادہ پرست لوگ ، جو پیسہ کمانے کے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو ، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں ۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں ، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں ۔ اس ذہنیت کے ساتھ اس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت ، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو ۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں ۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی ، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے ، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں ۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :299 مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو ، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں ، یا اپنے اعزہ و اقربا کی خبر گیری میں ، یا محتاجوں کی اعانت میں ، یا رفاہ عام کے کاموں میں ، یا اشاعت دین اور جہاد کے مقاصد میں ، بہرحال اگر وہ قانون الہٰی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہو گا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :300 یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا ، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا ۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں ، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پلٹے ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے ، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو ، وہ نہ دے سکے ۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے ، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے ۔
سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے ، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں ، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں ، ہتھیار خریدنے میں ، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں ۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے ، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے ۔ روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے ، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے ، آپ کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں ، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے ، آپ کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا ، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری ، اس لئے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کر دیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں ، سات سو تک ، مگر روزہ ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لئے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر و ثواب دوں گا ، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت ، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے ، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذِکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے ، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یہ حدیث غریب ہے اور حضرت ابو ہریرہ والی حدیث ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی علیہ صلواۃ اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) والی آیت اتری اور آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) 39 ۔ الزمر:10 ) اتری ، پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے ، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ ۔