Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَٮِٕنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿260﴾
اور جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اے میرے پروردگار !مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ ( جناب باری تعالٰی نے ) فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی فرمایا چار پرند لو ، ان کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑپر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی غالب ہے حکمتوں والا ہے ،
و اذ قال ابرهم رب ارني كيف تحي الموتى قال او لم تؤمن قال بلى و لكن ليطمىن قلبي قال فخذ اربعة من الطير فصرهن اليك ثم اجعل على كل جبل منهن جزءا ثم ادعهن ياتينك سعيا و اعلم ان الله عزيز حكيم
And [mention] when Abraham said, "My Lord, show me how You give life to the dead." [ Allah ] said, "Have you not believed?" He said, "Yes, but [I ask] only that my heart may be satisfied." [ Allah ] said, "Take four birds and commit them to yourself. Then [after slaughtering them] put on each hill a portion of them; then call them - they will come [flying] to you in haste. And know that Allah is Exalted in Might and Wise."
Aur jab ibrahim ( alh-e-salam ) ney kaha aey meray perwerdigar! Mujhay dikha tu murdon ko kiss tarah zinda keray ga? ( janab-e-bari taalaa ney ) farmaya kiya tumhen eman nahi? Jawab diya eman to hai lekin meray dil ko taskeen hojayegi farmaya chaar parind lo unn kay tukray ker dalo phir her pahar per inn ka aik aik tukra rakh do phir enehn pukaro tumharay pass dortay huye aajayen gay aur jaan rakho kay Allah Taalaa ghalib hai hikmaton wala hai.
اور ( اس وقت کا تذکرہ سنو ) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے پروردگار مجھے دکھایے کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں؟ اللہ نے کہا : کیا تمہیں یقین نہیں؟ کہنے لگے : یقین کیوں نہ ہوتا؟ مگر ( یہ خواہش اس لیے کی ہے ) تاکہ میرے دل کو پورا اطمینان حاصل ہوجائے ۔ ( ١٧٦ ) اللہ نے کہا : اچھا تو چار پرندے لو ، اور انہیں اپنے سے مانوس کرلو ، پھر ( ان کو ذبح کر کے ) ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو ، پھر ان کو بلاؤ ، وہ چاروں تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ ( ١٧٧ ) اور جان رکھو کہ اللہ پوری طرح صاحب اقتدار بھی ہے ، اعلی درجے کی حکمت والا بھی ۔
اور جب عرض کی ابراہیم نے ( ف۵٤۲ ) اے رب میرے مجھے دکھا دے تو کیونکر مردے جِلائے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ( ف۵٤۳ ) عرض کی یقین کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے ( ف۵٤٤ ) فرمایا تو اچھا ، چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلالے ( ف۵٤۵ ) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بلا وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاؤں سے دوڑتے ( ف۵٤٦ ) اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے
اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے مالک ! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ۔ فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ۔ 296 فرمایا: اچھا ، تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے ۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر ان کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لو کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔ 297 ؏۳۵
اور ( وہ واقعہ بھی یاد کریں ) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں ( یقین رکھتا ہوں ) لیکن ( چاہتا ہوں کہ ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے ، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر ( انہیں ذبح کر کے ) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے ، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :296 یعنی وہ اطمینان ، جو مشاہدہ عینی سے حاصل ہوتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :297 اس واقعے اور اوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے ، اسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ، تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آسکتی ۔ عام اہل ایمان کو اس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے ، اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب ( بے دیکھے ماننا ) کافی ہے ۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دنیا کو دینی تھی ۔ ان کو دنیا سے پورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دوڑاتے ہو ، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہےہیں ۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے ، تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں ۔ اسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں ، ان کو آسمان و زمین کے نظام حکومت ( ملکوت ) کا مشاہدہ کرایا گیا ہے ، ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے ، اور بعث بعد الموت کا ان کے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے ۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوت پر مامور ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں ۔ نبی ہونے کےبعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت انہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳٤ ) ۔
معمہ حیات و موت حضرت ابراہیم کے اس سوال کی بہت سی وجوہات تھیں ، ایک تو یہ کہ چونکہ یہی دلیل آپ نے نمرود مردود کے سامنے پیش کی تھی تو آپ نے چاہا کہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل ہو جائے ، جانتا تو ہوں ہی لیکن دیکھ بھی لیں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کے موقع کی ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم شک کے حقدار بہ نسبت حضرت ابراہیم کے زیادہ ہیں جبکہ انہوں نے کہا آیت ( وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ) 2 ۔ البقرۃ:260 ) ، تو اس سے کوئی جاہل یہ نہ سمجھے کہ حضرت خلیل اللہ کو اللہ کی اس صفت میں شک تھا ، اس حدیث کے بہت سے جواب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ( شاید یہ ہوگا کہ ہم خلیل اللہ سے کمزور ایمان والے ہونے کے باوجود خلاق عالم کی اس صفت میں شک نہیں کرتے تو خلیل اللہ کو شک کیوں ہوگا ؟ مترجم ) اب رب العالمین خالق کل فرماتا ہے کہ چار پرندے لے لو ، مفسرین کے اس بارے میں کئی قول ہیں کہ کون کون سے پرندے حضرت ابراہیم نے لئے تھے؟ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا علم ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس کا نہ جاننا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ، کوئی کہتا ہے وہ کلنگ اور مور اور مرغ اور کبوتر تھے ، کوئی کہتا ہے وہ مرغابی اور سیمرغ کا بچہ اور مرغ اور مور تھے ، کوئی کہتا ہے کبوتر ، مرغ ، مور اور کوا تھے ، پھر انہیں کاٹ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو ، حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں اور روایت میں ہے اپنے پاس رکھ لیا ، جب ہل گئے انہیں ذبح کر دیا ، پھر ٹکڑے ٹکڑے الگ الگ کر دئیے ، پس آپ نے چار پرند لئے ، ذبح کرکے ان کے ٹکڑے کئے پھر اکھیڑ دئیے اور سارے مختلف ٹکڑے آپس میں ملا دئیے ، پھر چاروں پہاڑوں پر وہ ٹکڑے رکھ دئیے اور سب پرندوں کے سر اپنے ہاتھ میں رکھے ، پھر بحکم الہ انہیں بلانے لگے جس جانور کو آواز دیتے اس کے بکھرے ہوئے پر ادھر ادھر سے اڑتے اور آپس میں جڑتے اسی طرح خون خون کے ساتھ ملتا اور باقی اجزاء بھی جس جس پہاڑ پر ہوتے آپس میں مل جاتے اور پرندہ اڑتا ہوا آپ کے پاس آتا ، آپ اسے دوسرے پرند کا سر دیتے تو وہ قبول نہ کرتا ، خود اس کا سر دیتے تو وہ بھی جڑ جاتا ، یہاں تک کہ ایک ایک کرکے یہ چاروں پرند زندہ ہو کر اُڑ گئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور مردوں کے زندہ ہونے کا یہ ایمان افروز نظارہ خلیل اللہ نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا ، پھر فرماتا ہے کہ جان لے اللہ غالب ہے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی ، جس کام کو چاہے بےروک ہو جاتا ہے ، ہر چیز اس کے قبضے میں ہے ، وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے اسی طرح اپنے انتظام میں اور شریعت کے مقرر کرنے میں بھی ، حضرت عبداللہ بن عباس فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم سے جناب باری کا یہ سوال کرنا کہ کیا تو ایمان نہیں لایا اور حضرت خلیل اللہ کا یہ جواب دینا کہ ہاں ایمان تو ہے لیکن دِلی اطمینان چاہتا ہوں ، یہ آیت مجھے تو اور تمام آیتوں سے زیادہ امید دلانے والی معلوم ہوتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایک ایماندار کے دِل میں اگر کوئی خطرہ وسوسہ شیطانی پیدا ہو تو اس پر پکڑ نہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی ملاقات ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ قرآن میں سب سے زیادہ امید پیدا کرنے والی آیت کون سی ہے؟ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر:53 ) والی آیت جس میں ارشاد ہے کہ اے میرے گنہگار بندو میری رحمت سے ناامید نہ ہونا میں سب گناہوں کو بخش دیتا ہوں ، ابن عباس نے فرمایا میرے نزدیک تو اس امت کیلئے سب سے زیادہ ڈھارس بندھانے والی آیت حضرت ابراہیم کا یہ قول ، پھر رب دو عالم کا سوال اور آپ کا جواب ہے ( عبدالرزاق و ابن ابی حاتم وغیرہ )