Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ‌ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ‌ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ‌ؕ قَالَ كَمۡ لَبِثۡتَ‌ؕ قَالَ لَبِثۡتُ يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَةَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡ‌ۚ وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ‌ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا ‌ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿259﴾
یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گُزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی ، وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے کس طرح زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالٰی نے اسے مار دیا سو سال کے لیئے ، پھر اسے اُٹھایا ، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں ، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
او كالذي مر على قرية و هي خاوية على عروشها قال انى يحي هذه الله بعد موتها فاماته الله ماة عام ثم بعثه قال كم لبثت قال لبثت يوما او بعض يوم قال بل لبثت ماة عام فانظر الى طعامك و شرابك لم يتسنه و انظر الى حمارك و لنجعلك اية للناس و انظر الى العظام كيف ننشزها ثم نكسوها لحما فلما تبين له قال اعلم ان الله على كل شيء قدير
Or [consider such an example] as the one who passed by a township which had fallen into ruin. He said, "How will Allah bring this to life after its death?" So Allah caused him to die for a hundred years; then He revived him. He said, "How long have you remained?" The man said, "I have remained a day or part of a day." He said, "Rather, you have remained one hundred years. Look at your food and your drink; it has not changed with time. And look at your donkey; and We will make you a sign for the people. And look at the bones [of this donkey] - how We raise them and then We cover them with flesh." And when it became clear to him, he said, "I know that Allah is over all things competent."
Ya uss shaks ki manind kay jiss ka guzar uss basti per hua jo chatt kay bal ondhi pari hui thi woh kehney laga iss ki maut kay baad Allah Taalaa issay kiss tarah zinda keray ga? To Allah Taalaa ney ussay maar diya so saal kay liye phir ussay uthaya pooha kitni muddat tujh pe guzri? Kehney laga aik din ya din ka kuch hissa farmaya bulkay tu so saal tak raha phir abb tu apney khaney peenay ko dekh kay bilkul kharab nahi hua aur apney gadhay ko bhi dekh hum tujhay logon kay liye aik nishani banatay hain tu dekh kay hum haddiyon ko kiss tarah uthatay hain phir unn per gosht charhatay hain jab yeh sab zahir ho chuka to kehney laga mein janta hun kay Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
یا ( تم نے ) اس جیسے شخص ( کے واقعے ) پر ( غور کیا ) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گذر ہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی ؟ ( ١٧٥ ) اس نے کہا کہ : اللہ اس بستی کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اس شخص کو سو سال تک کے لیے موت دی ، اور اس کے بعد زندگہ کردیا ۔ ( اور پھر ) پوچھا کہ تم کتنے عرصے تک ( اس حالت میں ) رہے ہو؟ اس نے کہا : ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ۔ اللہ نے کہا : نہیں بلکہ تم سو سال اسی طرح رہے ہو ۔ اب اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ ذرا نہیں سڑیں ۔ اور ( دوسری طرف ) اپنے گدھے کو دیکھو ( کہ گل سڑ کر اس کا کیا حال ہوگیا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ( اپنی قدرت کا ) ایک نشان بنا دیں ، اور ( اب اپنے گدھے کی ) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے ہیں ، پھر ان کو گوشت کا لباس پہناتے ہیں ۔ چنانچہ جب حقیقت کھل کر اس کے سامنے آگئی تو وہ بول اٹھا کہ : مجھے یقین ہے اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر ( ف۵٤۰ ) اور وہ ڈھئی ( مسمار ہوئی ) پڑی تھی اپنی چھتوں پر ( ف۵٤۱ ) بولا اسے کیونکر جِلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا ، فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم ، فرمایا نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ،
یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا ، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ۔ 293 اس نے کہا: یہ آبادی ، جو ہلاک ہوچکی ہے ، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟ 294 اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: بتاؤ ، کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟ اس نے کہا: ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ۔ فرمایا: تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا ہے ۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو ﴿کہ اسکا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ﴾ ۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں 295 ۔ پھر دیکھو کے ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
یا اسی طرح اس شخص کو ( نہیں دیکھا ) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا ، سو ( اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے ) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا ، ( بعد ازاں ) پوچھا: تُو یہاں ( مرنے کے بعد ) کتنی دیر ٹھہرا رہا ( ہے ) ؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا ( بھی ) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں ، فرمایا: ( نہیں ) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا ( ہے ) پس ( اب ) تُو اپنے کھانے اور پینے ( کی چیزوں ) کو دیکھ ( وہ ) متغیّر ( باسی ) بھی نہیں ہوئیں اور ( اب ) اپنے گدھے کی طرف نظر کر ( جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں ) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے ( اپنی قدرت کی ) نشانی بنا دیں اور ( اب ان ) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے ( اور اٹھاتے ) ہیں پھر انہیں گوشت ( کا لباس ) پہناتے ہیں ، جب یہ ( معاملہ ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں ( مشاہداتی یقین سے ) جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :293 یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی ۔ اصل مدعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے ، صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا ، اسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی ۔ شخص اور مقام ، دونوں کی تعیین کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ، نہ اس کا کوئی فائدہ ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے ، وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :294 اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انہیں اس میں شک تھا ، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے ، جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :295 ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دنیا سو ( ۱۰۰ ) برس پہلے مردہ سمجھ چکی تھی ، خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا ۔
سو سال بعد اوپر جو واقعہ حضرت ابراہیم کے مباحثہ کا گزرا ، اس پر اس کا عطف یہ ، یہ گزرنے والے یا تو حضرت عزیز تھے جیسا کہ مشہور ہے یا ارمیا بن خلقیا تھے اور یہ نام حضرت خضر کا ہے ، یا خرقیل بن بوار تھے ، یا بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا ، یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہی قول مشہور ہے ، بخت نصر نے جب اسے اجاڑا یہاں کے باشندوں کو تہ تیغ کیا ، مکانات گرا دئیے اور اس آباد بستی کو بالکل ویران کر دیا ، اس کے بعد یہ بزرگ یہاں سے گزرے ، انہوں نے دیکھا کہ ساری بستی تہ و بالا ہو گئی ہے ، نہ مکان ہے نہ مکین ، تو وہاں ٹھہر کر سوچنے لگے کہ بھلا ایسا بڑا پررونق شہر جو اس طرح اُجڑا ہے یہ پھر کیسے آباد ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر موت نازل فرمائی ، تو اسی حالت میں رہے اور وہاں ستر سال کے بعد بیت المقدس پھر آباد ہو گیا ، بھاگے ہوئے بنی اسرائیل بھی پھر آپہنچے اور شہر کھچا کھچ بھر گیا ، وہی اگلی سی رونق اور چہل پہل ہو گئی ، اب سو سال کامل کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور سب سے پہلے روح آنکھوں میں آئی تاکہ اپنا جی اُٹھنا خود دیکھ سکیں ، جب سارے بدن میں روح پھونک دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پچھوایا کہ کتنی مدت تک تم مردہ رہے؟ جس کے جواب میں کہا کہ ابھی تک ایک دن بھی پورا نہ ہوا ، وجہ یہ ہوئی کہ صبح کے وقت ان کی روح نکلی تھی اور سو سال کے بعد جب جئے ہیں تو شام کا وقت تھا ، خیال کیا کہ یہ وہی دن ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال کامل تک مردہ رہے ، اب ہماری قدرت دیکھو کہ تمہارا توشہ بھتا جو تمہارے ساتھ تھا ، باوجود سو سال گزر جانے کے بھی ویسا ہی ہے ، نہ سڑا نہ خراب ہوا ہے ۔ یہ توشہ انگور اور انجیر اور عصیر تھا نہ تو یہ شیرہ بگڑا تھا نہ انجیر کھٹے ہوئے تھے نہ انگور خراب ہوئے تھے بلکہ ٹھیک اپنی اصلی حالت پر تھے ، اب فرمایا یہ تیرا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تیرے سامنے پڑی ہیں ، انہیں دیکھ تیرے دیکھتے ہوئے ہم اسے زندہ کرتے ہیں ، ہم خد تیری ذات کو لوگوں کیلئے دلیل بنانے والے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اپنے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل ہو جائے ، چنانچہ ان کے دیکھتے ہوئے ہڈیاں اٹھیں اور ایک ایک کے ساتھ جڑیں ، مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت ننشزھا زے کے ساتھ ہے اور ننشزھا رے کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی زندہ کریں گے ، مجاہد کی قرأت یہی ہے ، سدی وغیرہ کہتے ہیں یہ ہڈیاں ان کے دائیں بائیں پھیل پڑی تھیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی سفیدی چمک رہی تھی ، ہوا سے یہ سب یکجاں ہو گئیں ، پھر ایک ایک ہڈی اپنی اپنی جگہ جڑ گئی اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا جس پر گوشت مطلق نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت ، رگیں ، پٹھے ، اور کھال پہنا دی ، پھر فرشتے کو بھیجا جس نے اس کے نتھنے میں پھونک ماری ، بس اللہ کے حکم سے اسی وقت ندہ ہو گیا اور آواز نکالنے لگا ، ان تمام باتوں کو دیکھ کر حضرت عزیز دیکھتے رہے اور مدت کی یہ ساری کاریگری ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوئی ، جب یہ سب کچھ دیکھ چکے تو کہنے لگے اس بات کا علم تو مجھے تھاہی کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ، تو میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ علم و یقین والا ہوں ، بعض لوگوں نے اعلم کو اعلم بھی پڑھا ہے ، یعنی اللہ مقتدر نے فرمایا کہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے ۔