Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِىۡ حَآجَّ اِبۡرٰهٖمَ فِىۡ رَبِّهٖۤ اَنۡ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ الۡمُلۡكَ‌ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّىَ الَّذِىۡ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُۙ قَالَ اَنَا اُحۡىٖ وَاُمِيۡتُ‌ؕ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاۡتِىۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِهَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُهِتَ الَّذِىۡ كَفَرَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ۚ‏ ﴿258﴾
کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا ، جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے ، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ تعالٰی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا ، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
الم تر الى الذي حاج ابرهم في ربه ان اتىه الله الملك اذ قال ابرهم ربي الذي يحي و يميت قال انا احي و اميت قال ابرهم فان الله ياتي بالشمس من المشرق فات بها من المغرب فبهت الذي كفر و الله لا يهدي القوم الظلمين
Have you not considered the one who argued with Abraham about his Lord [merely] because Allah had given him kingship? When Abraham said, "My Lord is the one who gives life and causes death," he said, "I give life and cause death." Abraham said, "Indeed, Allah brings up the sun from the east, so bring it up from the west." So the disbeliever was overwhelmed [by astonishment], and Allah does not guide the wrongdoing people.
Kiya tu ney ussay nahi dekha jo saltanat paa ker ibrahim ( alh-e-salam ) say uss kay rab kay baray mein jhagar raha tha jab ibrahim ( alh-e-salam ) ney kaha mera rab to woh hai jo jilata aur maarta hai woh kehney laga mein bhi jilata aur maarta hun ibrahim ( alh-e-salam ) ney kaha Allah Taalaa sooraj ko mashriq ki taraf say ley aata hai tu issay maghrib ki janib say ley aa. Abb to woh kafir bhoncka reh gaya aur Allah Taalaa zalimon ko hidayat nahi deta.
کیا تم نے اس شخص ( کے حال ) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار ( کے وجود ہی ) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا؟ جب ابراہیم نے کہا کہ : میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی ، تو وہ کہنے لگا کہ : میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں ۔ ( ١٧٤ ) ابراہیم نے کہا : اچھا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ ، اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا ۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔
اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر ( ف۵۳۵ ) کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی ( ف۵۳٦ ) جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے ( ف۵۳۷ ) بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں ( ف۵۳۸ ) ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب ( مشرق ) سے تو اس کو پچھم ( مغرب ) سے لے آ ( ف۵۳۹ ) تو ہوش اڑ گئے کافروں کے ، اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو ،
289 کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا ، جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا ؟ 290 جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ 291 جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے ، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا: زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ابراہیم نے کہا : اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا ۔ یہ سن کر وہ منکر حق ششدرہ رہ گیا ، 292 مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا ۔
۔ ( اے حبیب! ) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم ( علیہ السلام ) سے ( خود ) اپنے رب ( ہی ) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا ، جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ ( بھی ) کرتا ہے اور مارتا ( بھی ) ہے ، تو ( جواباً ) کہنے لگا: میں ( بھی ) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا ، اور اﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :289 اوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں ۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے ، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا ۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی ، اس لیے وضوح حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا ۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں ، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا ، سو اللہ ان کو تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہ غیب میں چھپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :290 اس شخص سے مراد نمرود ہے ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن ( عراق ) کا بادشاہ تھا ۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے ۔ مگر تَلْموُد میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار ( Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کھلم کھلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا ، تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :291 یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بہ النزاع تھی ، وہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا رب کس کو مانتے ہیں ۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اس جھگڑنے والے شخص ، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی ۔ ان دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: ( ۱ ) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں ، مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے ۔ ( ۲ ) خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک فوق الفطری ( Supernatural ) خدائی ، جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ارواح اور فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دعائیں مانگتے ہیں ، ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں ، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی ( یعنی حاکمیت ) ، جو قوانین حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعت امر کی مستحق ہو ، اور جسے دنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں ۔ اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے ، یا اس کے ساتھ ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خداؤں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں ۔ ( ۳ ) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا ۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبر وہ خود ہے ۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسباب عالم کے پورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے ۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں ، میری زبان قانون ہے ، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں ، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے ۔ ( ٤ ) ابراہیم علیہ السلام نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین ہی کو خدا اور معبود اور رب مانتا ہوں ، اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا قطعی طور پر منکر ہوں ، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے ، بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑتی ہے ، اسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جرم بغاوت کے الزام میں نمرود کے سامنے پیش کیے گئے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :292 اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ رب اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ، تاہم نمرود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا ۔ لیکن دوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا ۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اسی خدا کے زیر فرمان ہیں ، جس کو ابراہیم علیہ السلام نے رب مانا ہے ۔ پھر وہ کہتا ، تو آخر کیا کہتا ؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے ، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا ۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا ، خود پرستی کی تاریکی سے نکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا ۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس تبلیغ کے بعد راہ راست کھل جاتی ۔ تلمود کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام قید کر دیے گئے ۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے ۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے ان کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا ، جو سورہ انبیاء ، رکوع ۵ ، العنکبوت ، رکوع ۳-۲ ، اور الصافات ، رکوع ٤ میں بیان ہوا ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا آمنا سامنا اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر ، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین ، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر ، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اسے نہیں دیکھا ، جو حضرت ابراہیم سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا ، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا ، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا ، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی ، سرکشی اور تکبر ، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا ، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا ، حضرت ابراہیم سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے ، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا ، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بےمعنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں ، حضرت ابراہیم نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنالی ، ابراہیم بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کرسکے ، چنانچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہئے ، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چنانچہ وہ نکل رہا ہے ، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بےزبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہو گیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہو گئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہو سکا ، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں ، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کر دی ، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہو گیا ، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہئے اور جس طرح موت و حیات کے احکام اس کے جاری ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہو جائیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے؟ پس ابراہیم نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کر دیا فالحمدللہ ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ مناظرہ حضرت ابراہیم کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، زید بن اسلم کا قول ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے ، حضرت خلیل اللہ بھی گئے ، وہاں یہ مناظرہ ہو گیا بدبخت نے آپ کو غلہ نہ دیا ، آپ خالی ہاتھ واپس آئے ، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے ، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے ، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں ، کھانا پکا کر تیار کیا ، آپ کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے ، پوچھا اناج کہاں سے آیا ، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں ، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا ، آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے ، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی ، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا ۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں ، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا ، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا ، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے ، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا ، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا ، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی ۔ اعاذنا اللہ ۔