Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَةَ مُضۡغَةً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰهُ خَلۡقًا اٰخَرَ‌ ؕ فَتَبٰـرَكَ اللّٰهُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِيۡنَ ؕ‏ ﴿14﴾
پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا پھراس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کر دیا ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔
ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظما فكسونا العظم لحما ثم انشانه خلقا اخر فتبرك الله احسن الخلقين
Then We made the sperm-drop into a clinging clot, and We made the clot into a lump [of flesh], and We made [from] the lump, bones, and We covered the bones with flesh; then We developed him into another creation. So blessed is Allah , the best of creators.
Phir nutfay ko hum ney jama hua khoon bana diya phir uss khoon kay lothray ko gosht ka tukra ker diya. Phir gosht kay tukray ko haddiyan bana den phir haddiyon ko hum ney gosht pehna diya phir doosri banawat mein uss ko peda ker diya. Barkaton wala hai woh Allah jo sab say behtareen peda kerney wala hai.
پھر ہم نے اس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی ، پھر اس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنا دیا ، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا ، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا ، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہوگیا ۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے ۔
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا ، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی ( ف۱۲ ) تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بتانے والا ،
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ، 12 پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا ۔ 13 پس بڑا ہی بابرکت ہے 14 اللہ ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ۔
پھر ہم نے اس نطفہ کو ( رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں ) معلّق وجود بنا دیا ، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک ( ایسا ) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے ، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا ، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت ( اور پٹھے ) چڑھائے ، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں ( بدل کر تدریجاً ) نشو و نما دی ، پھر اللہ نے ( اسے ) بڑھا ( کر محکم وجود بنا ) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :12 تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5 ۔ 6 ۔ 9 ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :13 یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے دیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھائے گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی ۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوست کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ نہ سماعت ، نہ بصارت ، نہ گویائی ، نہ عقل و خرد ، نہ اور کوئی خوبی ۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی ۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے ۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے ۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ چیزے دیگر ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے ۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے ۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی ۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا ۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا ، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :14 اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے ۔ لغت اور استعمالات زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اس کا اندازہ کرو اس سے زیادہ ہی اس کو پاؤ حتی کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان حواشی 1 ۔ 19 ) ۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَارَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہ دلیل بھی ہے ۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے اسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے ، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں ، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے ۔