Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسۡكَنّٰهُ فِى الۡاَرۡضِ‌ۖ وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوۡنَ‌ ۚ‏ ﴿18﴾
ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں ، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں ۔
و انزلنا من السماء ماء بقدر فاسكنه في الارض و انا على ذهاب به لقدرون
And We have sent down rain from the sky in a measured amount and settled it in the earth. And indeed, We are Able to take it away.
Hum aik sahih andaz say aasman say paani barsatay hain phir ussay zamin mein thehra detay hain aur hum uss kay ley janey per yaqeena qadir hain.
اور ہم نے آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق پانی اتارا ، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا ، ( ١٢ ) اور یقین رکھو ، ہم اسے غائب کردینے پر بھی قادر ہیں ۔
اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ( ف۱۷ ) ایک اندازہ پر ( ف۱۸ ) پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں ( ف۱۹ )
اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ، 17 ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں ۔ 18
اور ہم ایک اندازہ کے مطابق ( عرصہ دراز تک ) بادلوں سے پانی برساتے رہے ، پھر ( جب زمین ٹھنڈی ہوگئی تو ) ہم نے اس پانی کو زمین ( کی نشیبی جگہوں ) میں ٹھہرا دیا ( جس سے ابتدائی سمندر وجود میں آئے ) اور بیشک ہم اسے ( بخارات بنا کر ) اڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیں
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :17 اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے ، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آغاز آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اس کرے کی ضروریات کے لیے اس کے علم میں کافی تھا ۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصوں میں ٹھہر گیا جس سے سمندر اور بحیرے وجود میں آئے اور آپ زیر زمین ( Sub-soil water ) پیدا ہو ا اب یہ اسی پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی ، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ، اسی کو بارشیں ، برف پوش پہاڑ ، دریا ، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں ، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے ۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے ، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا ۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا ؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے ؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟ اور کیا پانی اور ہوا اور گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی جواب رکھتے ہیں ؟ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :18 یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے ، بے شمار صورتیں ممکن ہیں ، اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں ۔ اس طرح یہ آیت سورہ ملک کی اس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : قُلْ اَرَاَیْتُم اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکَمْ غَوْراً فَمَنْ یَّاتِیْکُمْ بِمَآءِ مَّعِیْنٍ ہ ان سے کہو ، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا ؟
آسمان سے نزول بارش اللہ تعالیٰ کی یوں تو بیشمار اور ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت وضرورت بارش برساتا ہے ۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہوجائے اور پیداوار گل سڑ جائے ۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو ۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے ، باغات ہرے بھرے رہیں ۔ حوض ، تالاب ، نہریں ندیاں ، نالے ، دریا بہہ نکلیں نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی ۔ یہاں تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں کی زمین اس قابل ہی نہیں ہوتی وہاں پانی نہیں برستا لیکن ندیوں اور نالوں کے ذریعہ وہاں قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں کی زمین کو سیراب کردیتی ہے ۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے ۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھیچ کر جاتی ہے جو حبشہ کے علاقہ میں ہوتی ہے وہاں کی بارش کے ساتھ مٹی بہہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھہرجاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہوجاتی ہے ورنہ وہاں کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں ۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر ، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں اور حکمتیں زمین میں اللہ پانی کو ٹھیرا دیتا ہے زمین میں اس کو چوس لینے اور جذب کرلینے کی قابلیت اللہ تعالیٰ پیدا کردیتا ہے تاکہ دانوں کو اور گٹھلیوں کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کردینے پریعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں اگرچاہیں شور ، سنگلاخ زمین ، پہاڑوں اور بیکار بنوں میں برسادیں ۔ اگر چاہیں تو پانی کو کڑوا کردیں نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے ، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کار ہے ، نہ نہانے دھونے کے مقصد کا ۔ اگرچاہیں زمین میں وہ قوت ہی نہ رکھیں کہ وہ پانی کو جذب کرلے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ ایسی دوردراز جھیلوں میں پانی پہنچا دیں کہ تمہارے لے بیکار ہوجائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو ۔ یہ خاص اللہ کا فضل وکرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کردیتا ہے کھیتیاں الگ پکتی ہیں باغات الگ تیار ہوتے ہیں ، خود پیتے ہو اپنے جانوروں کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو فالحمدللہ ۔ آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لئے روزیاں اگاتا ہے ، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں ، کہیں سرسبز باغ ہیں جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں ۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے ۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں کے لئے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کردیے ہیں ۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکرگزاری بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ بہت میوے تمہیں اس نے دے رکھے ہیں جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو ۔ پھر زیتوں کے درخت کا ذکر فرمایا ۔ طورسیناوہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے ارد گرد کی پہاڑیاں طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو ہرا اور درختوں والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں گے طور نہیں کہیں گے ۔ پس طورسینا میں جو درخت زیتوں پیدا ہوتا ہے اس میں سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں کو سالن کا کام دیتا ہے ۔ حدیث میں ہے زیتوں کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں سے نکلتا ہے ( احمد ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ نے انہیں اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے چوپایوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں ، ان پر سوار ہوتے ہیں ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں اور دوردراز تک پہنچتے ہیں کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں تک پہچنے میں جان آدھی رہ جاتی ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربانی اور رحمت والا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ 71؀ ) 36-يس:71 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں چوپایوں کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائیں ان پر سواریاں لیں اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں ؟ یہ خشکی کی سواریاں ہیں پھر تری کی سواریاں کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں ۔