Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡهِ اَنِ اصۡنَعِ الۡفُلۡكَ بِاَعۡيُنِنَا وَ وَحۡيِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَفَارَ التَّـنُّوۡرُ‌ۙ فَاسۡلُكۡ فِيۡهَا مِنۡ كُلٍّ زَوۡجَيۡنِ اثۡنَيۡنِ وَاَهۡلَكَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَيۡهِ الۡقَوۡلُ مِنۡهُمۡ‌ۚ وَلَا تُخَاطِبۡنِىۡ فِى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا‌ۚ اِنَّهُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ‏ ﴿27﴾
تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑے تو تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے اور اپنے اہل کو بھی مگر ان میں سے جن کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے خبردار جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کرنا وہ تو سب ڈبوئے جائیں گے ۔
فاوحينا اليه ان اصنع الفلك باعيننا و وحينا فاذا جاء امرنا و فار التنور فاسلك فيها من كل زوجين اثنين و اهلك الا من سبق عليه القول منهم و لا تخاطبني في الذين ظلموا انهم مغرقون
So We inspired to him, "Construct the ship under Our observation, and Our inspiration, and when Our command comes and the oven overflows, put into the ship from each [creature] two mates and your family, except those for whom the decree [of destruction] has proceeded. And do not address Me concerning those who have wronged; indeed, they are to be drowned.
To hum ney unn ki taraf wahee bheji kay tu humari aankhon kay samney humari wahee kay mutabiq aik kashti bana. Jab humara hukum aajaye aur tanoor ubal paray to tu her qisam ka aik aik jora iss mein rakh ley aur apnay ehal ko bhi magar inn mein say jin ki babat humari baat pehaly guzar chuki hai. Khabardar jin logon ney zulm kiya hai unn kay baray mein mujh say kuch kalaam na kerna woh to sab doboye jayen gay.
چنانچہ ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ : تم ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ ۔ پھر جب ہمارا حکم آجائے ، اور تنور ابل پڑے ۔ ( ١٤ ) تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اسے بھی اس کشتی میں سوار کرلینا ۔ ( ١٥ ) اور اپنے گھر والوں کو بھی ، سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی حکم صادر ہوچکا ہے ۔ ( ١٦ ) اور ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا ، یہ بات طے ہے کہ یہ سب غرق کیے جائیں گے ۔
تو ہم نے اسے وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے ( ف۳٦ ) اور ہمارے حکم سے کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آئے ( ف۳۷ ) اور تنور ابلے ( ف۳۸ ) تو اس میں بٹھالے ( ف۳۹ ) ہر جوڑے میں سے دو ( ف٤۰ ) اور اپنے گھر والے ( ف٤۱ ) مگر ان میں سے وہ جن پر بات پہلے پڑچکی ( ف٤۲ ) اور ان ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے بات نہ کرنا ( ف٤۳ ) یہ ضرور ڈبوئے جائیں گے ،
اس پر اب تو ہی میری نصرت فرما ۔ ” 28 ہم نے اس پر وحی کی کہ ” ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر ۔ پھر جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑے 29 تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا ، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہو چکا ہے ، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا ، یہ اب غرق ہونے والے ہیں ۔
پھر ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بناؤ سو جب ہمارا حکمِ ( عذاب ) آجائے اور تنور ( بھر کر پانی ) ابلنے لگے تو تم اس میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو جوڑے ( نر و مادہ ) بٹھا لینا اور اپنے گھر والوں کو بھی ( اس میں سوار کر لینا ) سوائے ان میں سے اس شخص کے جس پر فرمانِ ( عذاب ) پہلے ہی صادر ہو چکا ہے ، اور مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں کچھ عرض بھی نہ کرنا جنہوں نے ( تمہارے انکار و استہزاء کی صورت میں ) ظلم کیا ہے ، وہ ( بہر طور ) ڈبو دیئے جائیں گے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :28 یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : فَدَعَا رَبَّہ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، پس نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تو ان سے بدلہ لے ( القمر آیت 10 ) اور سورہ نوح میں فرمایا : قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَ الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ہ اِنَّکَ اِنْ تَزَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبادَکَ وَلَا یَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ۔ اور نوح نے کہا اے میرے پرو دگار ، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ ، اگر تونے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرین حق ہی پیدا ہوں گے ( آیت 26 ) سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :29 بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے ، بعض نے زمین کا بلند ترین حصہ مراد لیا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّور کا مطلب طلوع فجر ہے ، اور بعض کی رائے میں یہ : حمی الوطیس ، کی طرح ایک استعارہ ہے ہنگامہ گرم ہو جانے کے معنی میں ۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی ابلنے پر ہو گا ۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی ابل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا ۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں ۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہیں جاسکتا ۔