سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :34
بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے ، کیونکہ آگے چل کر ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صیحہ کے عذاب سے تباہ کی گئی ، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود وہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا ، ( ہود ، 67 ۔ الحجر ، 83 ۔ القمر ، 31 ) ۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے قوم نوح کے بعد یہی قوم اٹھائی گئی تھی ، وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ( اعراف ۔ آیت 69 ) ۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ قوم نوح کے بعد کا اشارہ اسی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ رہا صَیْحَہ ( چیخ ، آواز ، شور ، ہنگامہ عظیم ) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اس آوازہ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کی موجب ہو ، اسی طرح اس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سبب ہلاکت کچھ ہی ہو ۔