سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :36
بعض لوگوں نے یہ غلط سمجھا ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے ۔ نہیں یہ خطاب دراصل عوام الناس سے تھا ۔ سرداران قوم کو جب خطرہ ہوا کہ عوام پیغمبر کی پاکیزہ شخصیت اور دل لگتی باتوں سے متاثر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے متاثر ہو جانے کے بعد ہماری سرداری پھر کس پر چلے گی ، تو انہوں نے یہ تقریریں کر کر کے عام لوگوں کو بہکانا شروع کیا ۔ یہ اسی معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے جو اوپر سرداران قوم نوح کے ذکر میں بیان ہوا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبری ویغمبری کچھ نہیں ہے ، محض اقتدار کی بھوک ہے جو اس شخص سے یہ باتیں کرا رہی ہے ۔ یہ فرماتے ہیں کہ بھائیو ، ذرا غور تو کرو کہ آخر یہ شخص تم سے کس چیز میں مختلف ہے ۔ ویسا ہی گوشت پوست کا آدمی ہے جیسے تم ہو ۔ کوئی فرق اس میں اور تم میں نہیں ہے ۔ پھر کیوں یہ بڑا بنے اور تم اس کے فرمان کی اطاعت کرو؟ ان تقریروں میں یہ بات گویا بلا نزاع تسلیم شدہ تھی کہ ہم جو تمہارے سردار ہیں تو ہمیں تو ہونا ہی چاہیے ، ہمارے گوشت پوست اور کھانے پینے کی نوعیت کی طرف دیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ زیر بحث ہماری سرداری نہیں ہے ، کیونکہ وہ تو آپ سے آپ قائم اور مسلم ہے ، البتہ زیر بحث یہ نئی سرداری ہے جو اب قائم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کی بات سرداران قوم نوح کی بات سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جن کے نزدیک قابل الزام اگر کوئی چیز تھی تو وہ اقتدار کی بھوک تھی جو کسی نئے آنے والے کے اندر محسوس ہو یا جس کے ہونے کا شبہ کیا جا سکے ۔ رہا ان کا اپنا پیٹ ، تو وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار بہرحال اس کی فطری خوراک ہے جس سے اگر وہ بد ہضمی کی حد تک بھی بھر جائے تو قابل اعتراض نہیں ۔