Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَجَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡيَمَ وَاُمَّهٗۤ اٰيَةً وَّاٰوَيۡنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبۡوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيۡنٍ‏ ﴿50﴾
ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی ۔
و جعلنا ابن مريم و امه اية و اوينهما الى ربوة ذات قرار و معين
And We made the son of Mary and his mother a sign and sheltered them within a high ground having level [areas] and flowing water.
Hum ney ibn-e-marium aur uss ki walida ko aik nishani banaya aur unn dono ko buland saaf qarar wali aur jari pani wali jagah mein panah di.
اور مریم کے بیٹے ( عیسی علیہ السلام ) کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا ، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی ، اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا ۔ ( ٢٠ )
اور ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو ( ف۷۹ ) نشانی کیا اور انھیں ٹھکانا دیا ایک بلند زمین ( ف۸۰ ) جہاں بسنے کا مقام ( ف۸۱ ) اور نگاہ کے سامنے بہتا پانی ،
اور ابن مریم ( علیہ السلام ) اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا 43 اور ان کو ایک سطح مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے ۔ 44 ؏ 3
اور ہم نے ابن مریم ( عیسٰی علیہ السلام ) کو اور ان کی ماں کو اپنی ( زبردست ) نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک ( ایسی ) بلند زمین میں سکونت بخشی جو بآسائش و آرام رہنے کے قابل ( بھی ) تھی اور وہاں آنکھوں کے ( نظارے کے ) لئے بہتے پانی ( یعنی نہریں ، آبشاریں اور چشمے بھی ) تھے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :43 یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم ۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا ۔ بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے ۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغیر ابن مریم کا پیدا ہونا ، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتی ہے ۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے ؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حواشی 44 ۔ 53 ۔ النساء حواشی 190 ۔ 212 ۔ 213 ۔ جلد سوم ، مریم ، حواشی 15 تا 22 الانبیاء ، حواشی 89 ۔ 90 ) ۔ یہاں دو باتیں اور بھی قابل توجہ ہیں ۔ اول یہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا ان پر تو ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ تم بشر ہو ، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے ۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا ۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش ، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی انکو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونہ عبرت بن گئی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :44 مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں ۔ کوئی دمشق کہتا ہے ، کوئی الرَّملہ ، کوئی بیت المقدس ، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں ۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں ۔ پھر اَز خِلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی ( متی2 ۔ 13 تا 23 ) ۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو ۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو ۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری ۔
ربوہ کے معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد وعورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد وعورت سے پیدا کیا ۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور انکی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا ۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہوگا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے ۔ ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت ( قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا 24؀ ) 19-مريم:24 ) تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہادی ہے ۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے ۔