Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يُؤۡتِى الۡحِكۡمَةَ مَنۡ يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَنۡ يُّؤۡتَ الۡحِكۡمَةَ فَقَدۡ اُوۡتِىَ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿269﴾
وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں ۔
يؤتي الحكمة من يشاء و من يؤت الحكمة فقد اوتي خيرا كثيرا و ما يذكر الا اولوا الالباب
He gives wisdom to whom He wills, and whoever has been given wisdom has certainly been given much good. And none will remember except those of understanding.
Woh jissay chahaye hikmat aur danaee deta hai aur jo shaks hikmat aur samajh diya jaye woh boht sari bhalaee diya gaya aur naseehat sirf aqal mand hi hasil kertay hain.
وہ جس کو چاہتا ہے دانائی عطا کردیتا ہے ، اور جسے دانائی عطا ہوگئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی ۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو سمجھ کے مالک ہیں ۔
اللہ حکمت دیتا ہے ( ف۵۷۲ ) جسے چاہے اور جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی ملی ، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے ،
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ، اور جس کو حکمت ملی ، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی ۔ 309 ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں ، جو دانشمند ہیں ۔
جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے ، اور جسے ( حکمت و ) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی ، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :309 حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے ۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی ، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا ، بلکہ اس راہ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے ۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے ۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نور پایا ہے ، ان کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے ۔ حکمت و دانائی ان کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے ، اسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے ۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو ، لیکن انسان کے لیے یہ دنیا کی زندگی پوری زندگی نہیں ، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جز ہے ۔ اس چھوٹے سے جز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے ، وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے ۔ عقل مند دراصل وہی ہے ، جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا ۔