Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
سُوۡرَةٌ اَنۡزَلۡنٰهَا وَفَرَضۡنٰهَا وَاَنۡزَلۡنَا فِيۡهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿1﴾
یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں ( احکام ) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو ۔
سورة انزلنها و فرضنها و انزلنا فيها ايت بينت لعلكم تذكرون
[This is] a surah which We have sent down and made [that within it] obligatory and revealed therein verses of clear evidence that you might remember.
Yeh hai woh surat jo hum ney nazil farmaee hai aur muqarrar ker di hai aur jiss mein hum ney khulli aayaten ( ehkaam ) utaray hain takay tum yaad rakho.
یہ ایک سورت ہے جو ہم نے نازل کی ہے ، اور جس ( کے احکام ) کو ہم نے فرض کیا ہے ، اور اس میں کھلی کھلی آیتیں نازل کی ہیں ، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔
یہ ایک سورة ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اس کے احکام فرض کیے ( ف۲ ) اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو ،
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے ، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے ، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں ، 1 شاید کہ تم سبق لو ۔
  ( یہ ) ایک ( عظیم ) سورت ہے جسے ہم نے اتارا ہے اور ہم نے اس ( کے احکام ) کو فرض کر دیا ہے اور ہم نے اس میں واضح آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :1 ان سب فقروں میں ہم نے پر زور ہے ۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہیں ، اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا ۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں ، اور جس کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے ۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ سفارشات نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں ، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے ۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو ۔ تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے ۔ بس یہ اس فرمان مبارک کی تمہید ( Preamble ) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس تمہید کا انداز بیان خود بتا رہا ہے کہ سورہ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فرما رہا ہے ۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے ۔
مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں ۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام ، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے ۔ اس میں صاف صاف ، کھلے کھلے ، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو ۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی ۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو ۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی ۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا ، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں ۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے ۔ یہ حضرت انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے ۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا ۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا رضی اللہ عنہا ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا ۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا ، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے ۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو ، خواہ عورت ہو ۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے ، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے ۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے ، قرآن میں جو نہ تھا ، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا ، جس طرح نازل ہوئی تھی ۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا ۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا ۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے ۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں ۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا ۔ یا اسی کے مثل ۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے ، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا ۔ واللہ اعلم ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا ، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا ۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں ۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ، مالک رحمتہ اللہ علیہ ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں ۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا ۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے سنگسار کرایا ۔ مسند احمد ، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میری بات لے لو ، میری بات لے لو ، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا ۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے ۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے ۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو ، پہنچ جائے ، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے ۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو ، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی ۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے ۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر ، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں ۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے ۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت ( ولا تاخذ کم الخ ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے ۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں ۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے ۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے ۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے ۔ رجم بری چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں ۔ اسے علانیہ سزا دی جائے ، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے ۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں ، چار ہوں یا اس سے زیادہ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت ، عبرت اور سزا ہو ۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں ۔