Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ‌وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ۚ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآٮِٕفَةٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2﴾
زنا کار عورت و مرد میں سےہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے ، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔
الزانية و الزاني فاجلدوا كل واحد منهما ماة جلدة و لا تاخذكم بهما رافة في دين الله ان كنتم تؤمنون بالله و اليوم الاخر و ليشهد عذابهما طاىفة من المؤمنين
The [unmarried] woman or [unmarried] man found guilty of sexual intercourse - lash each one of them with a hundred lashes, and do not be taken by pity for them in the religion of Allah , if you should believe in Allah and the Last Day. And let a group of the believers witness their punishment.
Zina kaar aurat-o-mard mein say her aik ko so koray lagao. Inn per Allah ki shareeat ki hadd jari kertay huye tumhen hergiz tars na khana chahaye agar tumhen Allah per aur qayamat kay din per eman ho. Inn ki saza kay waqt musalmano ki aik jamatmojood honi chahaye.
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ ، ( ١ ) اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ، تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے ۔ اور یہ بھی چاہیے کہ مومنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے ۔
جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ( ف۳ ) اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں ( ف٤ ) اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو ( ف۵ )
زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو ۔ 2 اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ 3 اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے ۔ 4
بدکار عورت اور بدکار مرد ( اگر غیر شادی شدہ ہوں ) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو ( شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر ) سو ( سو ) کوڑے مارو ( جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے ) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین ( کے حکم کے اجراء ) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا ( کے موقع ) پر مسلمانوں کی ( ایک اچھی خاصی ) جماعت موجود ہو
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر : 2 اس مسئلے کے بہت سے قانون ، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریع الہی کا سمجھنا مشکل ہے ۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے: ( ۱ ) زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے ، یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شو ہو ، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں ۔ اس فعل کا اخلاقا برا ہونا ، یا مذہبا گناہ ہونا ، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا ، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں ۔ اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے ، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے ، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے ۔ اس عالمگیر اتفاق رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں ، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو ، اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی ، کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور نشو و نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے جد میں آنے کا سبب بنا ہ ۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا ، کیونکہ تمدن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے ، اور پھر خاندانں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہے ۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں ، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے ، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے ۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلم عہد و وفا پر مبنی نہ ہو انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ انہی وجوہ سے انسان اس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب ، ایک بڑی بد اخلاقی ، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے ۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدباب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے ۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے ، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے الجھ کر رہ گیا ہے ۔ ( ۲ ) زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم ، یعنی قانونا مستلزم سزا ہونے کا مسئلہ ہے ، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ زنا ، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں ۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن خراب کرتا گیا ہے ۔ رویہ نرم ہوتا چلا گیا ہے ۔ اس معاملہ میں اولین تساہل جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا ، یہ تھا کہ محض زنا ( Fornication ) اور زنا بزن غیر ( Adultery ) میں فرق کر کے ، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی اور صرف موخر الذکر کو جرم مسلتزم سزا قرار دیا گیا ۔ محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی مرد خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو ۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں ، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے ۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے ، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔ قدیم مصر ، بابل ، آشور ( اسیریا ) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی ۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا ، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے ۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے ۔ کتاب خروج میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو ، جس کی نسبت ( یعنی منگنی ) نہ ہوئی ہو ، پھسلا کر اس سے مباشرت کرلے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے ، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے ، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق ( یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو ) اسے نقدی دے ۔ ( باب 22 ۔ آیت 16 ۔ 17 ) کتاب استثناء میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی ( تقریبا 55 روپے ) تاوان دلوایا جائے ( باب 22 ۔ آیت 28 ۔ 29 ) البتہ اگر کوئی شخص کاہن ( یعنی پروہت ، Priest ) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے ، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی ، ( Everymans Talmud, p 319-2C ) یہ تخیل ہندوؤں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منوکی دھرم شاستر سے مقابلہ کر کے دیکھیے ، وہاں لکھا ہے کہ : جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضا مندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے ۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کرلے ۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے ۔ ( ادھیائے 8 اشلوک 365 ۔ 366 ) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جاسکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو ( اشلوک 377 ) دراصل ان سب قوانین میں زنا بزن غیر ہی اصل اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص ( خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو ۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ یہ تھی کہ ان دونوں نے ملک کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کردیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے ۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خرچ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے ۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کی یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے ۔ یونان اور روم میں ابتداء ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کردے ، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان وصول کرلے ۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کردیا جائے ، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی 1/3 جائداد ضبط کر کے اسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصے میں بھیج دیا جائے ۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی ۔ لیو ( Leo ) اور مارسین ( Marcian ) کے دور میں اس سزا کو حبس دوام میں تبدیل کردیا گیا ، پھر قیصر جسٹینین نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کردیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے نکلوا لے ، ورنہ ساری عمر وہیں پڑا رہنے دے ۔ یہودی قانون میں زنا بزن غیر کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں: اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کرے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو ، تو ان دونوں کو سزا ملے ، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی ۔ ( احبار 19 ۔ 20 ) جو شخص دوسرے کی بیوی سے ، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں ۔ ( احبار 20 ۔ 10 ) اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں ۔ ( استثناء 22 ۔ 22 ) اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو ( یعنی اس کی منگنی ہو ) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں ۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا ، پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہوچکی ہو ، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبرا اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا ۔ ( استثناء 22 ۔ 22 تا 26 ) لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء ، فقہاء ، امراء اور عوام سب اس قانون کو عملا منسوخ کرچکے تھے ۔ یہ اگرچہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا اور خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا ، مگر اسے عملا نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا ، حتی کہ یہودیوں کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو ۔ حضرت عیسی علیہ السلام جب دعوت حق لے کر اٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے ( یوحنا باب 8 ۔ آیت 1 ۔ 11 ) اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسی کو کنویں یا کھائی دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کردیں ۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے ، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحت کی خاطر خدائی قانون بدل ڈالا ۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانوان پیغمبر صاحب کو ، دیکھ لینا ، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی ۔ لیکن حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر الٹ دیا ۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے ۔ یہ سنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی ۔ ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہوگیا اور حاملات شرح متین کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہوکر رہ گئی ۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کرا کے رخصت کردیا ، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ کرتے نہ اس پر کوئی شہادت قائم ہوئی تھی اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانون الہی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے ۔ عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور قصور قائم کرلیا ۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد ، غیر شادی شدہ عورت سے کرے تو یہ گناہ تو ہے ، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے ۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق خواہ وہ عورت ہو یا مرد ، شادی شدہ ہو یا دونوں شادی شدہ ہوں ، تو یہ جرم ہے ، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل عہد شکنی ہے نہ کہ محض زنا ۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہوکر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اس نے اس عہد وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا ۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طرف اپنی بیوی پر دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا ۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے ، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی دو دھاری تلوار ہے ۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی ، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کرسکے گی ۔ اور ایسا ہی حشر اس مرد کا بھی ہوگا جو بیوی پر بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے ، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاح ثانی کا حق نہیں دیتا ۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریک زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے ۔ موجودہ زمانے کے مغربی قوانین جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں ، انہی مختلف تصورات پر مبنی ہیں ۔ ان کے نزدیک زنا عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو ، جرم بہرحال نہیں ہے ۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے ، جبکہ فریق ثانی کی مرضی کے خلاف زبردستی اس سے مباشرت کی جائے ۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکاب زنا ، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیے ہے ، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کرلے ۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہوتی ہے ، اور دونوں پر دعوی کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کرسکتا ہے ۔ ( ۳ ) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جرم مستلزم سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہوکر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے عہد شکنی کی یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی ، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا ، اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا ۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے جس کی اگر آزادی ہوجائے تو ایک طرف نوع انسانی کی اور دوسرے طرف تمدن انسانی کی جڑ کٹ جائے ۔ نوع کے بقاء اور تمدن کے قیام ، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابل اعتماد رابطے تک محدود ہو ۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی گنجائش موجود رہے ، کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشات نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں ، وہاں ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوں گے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے ۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے موثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے ۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بے ٹکٹ سفر کرتے تو کم درجے کا مجرم ہے ، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے ۔ ( ۴ ) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کرتا ، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے ، اور یہ قانون تعزیر اس نے محض ایک آخری چارہ کار کے طور پر تجویز کی ہے ۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں ، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے ۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے ، اسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ، اس میں قانون الہی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے ، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالی سخت باز پرس کرے گا ۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے ۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے ۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے ۔ اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تاکہ یا تو مصالحت ہوجائے ، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہوکر جہاں دل ملے نکاح کرلیں ۔ یہ سب کچھ آپ سورہ بقرہ ، سورہ نساء ، اور سورہ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اور اسی سورہ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کردیے جائیں ، حتی کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے ۔ پھر وہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے ، اس کی تحریک کرنے والے ، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہوسکتے ہیں ۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورہ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں ، اور مسلمان عورتوں کے لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت کے ساتھ بیٹھو ، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو ، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں ۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے ان تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبی کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں ۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی ، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند کیا گیا ، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کردیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں ۔ ان سب کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورہ نور میں اشاعت فحش کو بھی روکا جارہا ہے ، قحبہ گری ( Prostitution ) کی قانونی بندش بھی کی جارہی ہے ، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جارہی ہے ، غض بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے جارہے ہیں تاکہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے ، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جارہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں ۔ اس سے آپ اس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے ۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیر اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کر ناجائز طریقے سے ہی اپنی خواہش نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال ادھیڑ دی جائے ، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے ان بہت سے لوگوں کو نفسیاتی آپریشن کردیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں ۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذواقین اور ذواقات اخلاقی قیود سے آزاد ہوکر مزے لوٹتے پھریں ۔ اس نقطہ نظر سے کوئی شخس اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کرلے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ کم و بیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں ردو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کرسکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مصلح بن بیٹھا ہو ، یا پھر وہ مفسد ایسا کرسکتا ہے جس کی اصل نیت اس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیم مطلق نے تجویز کی ہے ۔ بقیہ تفسیر ریکارڈ نمبر2819پر ملاحظہ کریں