Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلزَّانِىۡ لَا يَنۡكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوۡ مُشۡرِكَةً  وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنۡكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِكٌ‌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰ لِكَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿3﴾
زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا ۔
الزاني لا ينكح الا زانية او مشركة و الزانية لا ينكحها الا زان او مشرك و حرم ذلك على المؤمنين
The fornicator does not marry except a [female] fornicator or polytheist, and none marries her except a fornicator or a polytheist, and that has been made unlawful to the believers.
Zaani mard ba-juz zaaniya ya mushrika aurat kay aur say nikah nahi kerta aur zina kaar aurat bhi bajuz zaani ya mushrik mard kay aur nikah nahi kerti aur eman walon per yeh haram ker diya gaya.
زانی مرد نکاح کرتا ہے تو زنا کا ریا مشرک عورت ہی سے نکاح کرتا ہے ، اور زنا کار عورت سے نکاح کرتا ہے تو وہی مرد جو خود زانی ہو ، یا مشرک ہو ( ٢ ) اور یہ بات مومنوں کے لیے حرام کردی گئی ہے ( ٣ )
بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے ، اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک ( ف٦ ) اور یہ کام ( ف۷ ) ایمان والوں پر حرام ہے ( ف۸ )
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک ۔ اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر ۔ 5
بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے ( کسی پاکیزہ عورت سے ) نکاح ( کرنا پسند ) نہیں کرتا اور بدکار عورت سے ( بھی ) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے کوئی ( صالح شخص ) نکاح ( کرنا پسند ) نہیں کرتا ، اور یہ ( فعلِ زنا ) مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :5 یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے ، یا پھر مشرکہ ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے ، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں ۔ اسی طرح زانیہ ( غیر تائبہ ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک ۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں ، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں ۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں ۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد زانی ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی ۔ زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے ، نہ یہ کہ اس حکم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال ، حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا ( طبرانی ، دارقطنی ) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے ، وہ بھی بد کار قرار پائے ۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون ( Out law ) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے ۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے ، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے ۔ اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے ، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے ۔ آیت کا منشا دراصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو ۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے ، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے ۔ آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی ۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی ۔ ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے ۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کرلیں اور حضور سے اجازت مانگی ۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے ۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد ، الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا ۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دیوث ہو ( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ( احمد ، نسائی ، ابو داؤد اور طیالِسی ) ۔ شیخین ، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے ۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا ، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : قبحک اللہ ، الا سترت علی ابنتک ، تیرا برا ہو ، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا ، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا ۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں ( جلد 2 ۔ ص 86 ) ۔
زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی ۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے ۔ یہی قول مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبر ، ضحاک ، مکحول ، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے ۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے ( مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25؀ۧ ) 4- النسآء:25 ) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں ، وہ بدکار نہ ہوں ، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں ۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے ۔ اسی طرح بھولی بھالی ، پاک دامن ، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے ۔ ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا ، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے ۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا ۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا ۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں ۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا ۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے ۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آگیا ہے ۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے ۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا ۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا ۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا ۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں ۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے ۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا ، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا ۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے ۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا ۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا ۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے ۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٢ ) وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں ۔ ( ٣ ) اور دیوث ۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ( ٢ ) ہمیشہ کا نشے کا عادی ( ٣ ) اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے ( ١ ) ہمیشہ کا شرابی ۔ ( ٢ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٣ ) اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا ۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے ، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ دیوث کہتے ہیں بےغیرت شخص کو ۔ نسائی میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلاق دیدے ۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا ۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں ۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ تو اسے منکر کہتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے ۔ جس پر سخت وعید آئی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے ۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا ۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے ۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀ ) 24- النور:32 ) سے ۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔