Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالۡخَـامِسَةُ اَنَّ لَـعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كَانَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿7﴾
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو ۔
و الخامسة ان لعنت الله عليه ان كان من الكذبين
And the fifth [oath will be] that the curse of Allah be upon him if he should be among the liars.
Aur paanchwen martaba kahey kay uss per Allah ki lanat ho agar woh jhooton mein say ho.
اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ : اگر میں ( اپنے الزام میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ۔
اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر جھوٹا ہو ،
اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ ﴿ اپنے الزام میں﴾ جھوٹا ہو ۔
اور پانچویں مرتبہ یہ ( کہے ) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو
بقیہ ریکارڈ نمبر2815 سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :3 اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو دین اللہ فر مایا جا رہا ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں ، مملکت کا قانون بھی دین ہے ۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے ۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا ۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں خود دین اللہ رد کر دیا گیا ۔ دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے ۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سوطا فیقال لہ لِمَ فعلت ذٰاک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیقال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہ الی النار ۔ و یؤتیٰ بمن زاد سوطا فیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک ۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومر بہ الی النار ۔ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا ۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر ۔ ارشاد ہو گا اچھا ، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا ۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں ۔ ارشاد ہو گا اچھا ، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ( تفسیر کبیر ۔ ج 6 ۔ ص 225 ) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو ۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے ۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خبطہ میں فرمایا لوگو ، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ( نسائی و ابن ماجہ ) ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے ، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں ۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے ۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں ۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے ، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے ۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے ، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا ۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :4 یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے ، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت ۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے ۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ ۔ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا ( آیت 38 ) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں ۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جو اس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی ۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے ۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں ۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں ۔