Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَوۡلَا جَآءُوۡ عَلَيۡهِ بِاَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ‌ ۚ فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓٮِٕكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿13﴾
وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں ۔
لو لا جاءو عليه باربعة شهداء فاذ لم ياتوا بالشهداء فاولىك عند الله هم الكذبون
Why did they [who slandered] not produce for it four witnesses? And when they do not produce the witnesses, then it is they, in the sight of Allah , who are the liars.
Woh iss per char gawah kiyon na laye? Aur jab gawah nahi laye to yeh bohtan baaz log yaqeenan Allah kay nazdeek mehaz jhootay hain.
وہ ( بہتان لگانے والے ) اس بات پر چار گواہ کیوں نہیں لے آئے؟ اب جبکہ وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ۔
اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے ، تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں ،
وہ لوگ ﴿اپنے الزام کے ثبوت میں﴾ چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں ، اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ۔ 14
یہ ( افترا پرداز لوگ ) اس ( طوفان ) پر چار گواہ کیوں نہ لائے ، پھر جب وہ گواہ نہیں لا سکے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :14 اللہ کے نزدیک یعنی اللہ کے قانون میں ، اللہ کے قانون کے مطابق ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا ، اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں ۔ اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں ۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی ۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے ، یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے ، بلکہ صرف اس بنیاد پر اتنا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے ۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا ، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا ۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر دن دہاڑے ، ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے ۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی ۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو ۔ ورنہ قرائن ، جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی ، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے ۔