Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡهُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِهِمۡ خَيۡرًاۙ وَّقَالُوۡا هٰذَاۤ اِفۡكٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿12﴾
اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمائی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے ۔
لو لا اذ سمعتموه ظن المؤمنون و المؤمنت بانفسهم خيرا و قالوا هذا افك مبين
Why, when you heard it, did not the believing men and believing women think good of one another and say, "This is an obvious falsehood"?
Issay suntay hi momin mard-o-aurton ney apnay haq mein nek gumani kiyon na ki aur kiyon na keh diya kay yeh to khullam khulla sareeh bohtan hai.
جس وقت تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد بھی اور مومن عورتیں بھی اپنے بارے میں نیک گمان رکھتے اور کہہ دیتے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے؟
کیوں نہ ہوا ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا ( ف۲۰ ) اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے ( ف۲۱ )
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا 12 اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ 13
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس ( بہتان ) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور ( یہ ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا ( جھوٹ پر مبنی ) بہتان ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :13 یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی ۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا ۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اگرچہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا ، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی ، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے ۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے ۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی ۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ، اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی ۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے ۔
اخلاق و آداب کی تعلیم ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے ، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المومنین کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے ۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا ۔ حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو حضرت عائشہ کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور یہ یقینا جھوٹ ہے ۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن ۔ آپ نے فرمایا پس حضرت عائشہ تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں ۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا ۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں کا ذکر ہوا ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی ۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ حصرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا ۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہئے ۔ اس لئے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے ۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا ۔ پھر فرمایا کہ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں ۔ فاسق و فاجر ہیں ۔