Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡكِ عُصۡبَةٌ مِّنۡكُمۡ‌ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡهُ شَرًّا لَّـكُمۡ‌ ؕ بَلۡ هُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ ؕ لِكُلِّ امۡرِىٴٍ مِّنۡهُمۡ مَّا اكۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ‌ ۚ وَالَّذِىۡ تَوَلّٰى كِبۡرَهٗ مِنۡهُمۡ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿11﴾
جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو ، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے ۔
ان الذين جاءو بالافك عصبة منكم لا تحسبوه شرا لكم بل هو خير لكم لكل امر منهم ما اكتسب من الاثم و الذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم
Indeed, those who came with falsehood are a group among you. Do not think it bad for you; rather it is good for you. For every person among them is what [punishment] he has earned from the sin, and he who took upon himself the greater portion thereof - for him is a great punishment.
Jo log yeh boht bara bohtan bandh laye hain yeh bhi tum mein say hi aik giroh hai. Tum issay apnay liye bura na samjho bulkay yeh to tumharay haq mein behtar hai. Haan inn mein say her aik shaks per itna gunah hai jitna uss ney kamaya hai aur inn mein say jiss ney iss kay boht baray hissay ko sir anjam diya hai uss kay liye azab bhi boht hi bara hai.
یقین جانو کہ جو لوگ یہ جھوٹی تہمت گھڑ کر لائے ہیں وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے ( ٩ ) تم اس بات کو اپنے لیے برا نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہی بہتر ہے ۔ ( ١٠ ) ان لوگوں میں سے ہر ایک کے حصے میں اپنے کیے کا گناہ آیا ہے ۔ اور ان میں سے جس شخص نے اس ( بہتان ) کا بڑا حصہ اپنے سر لیا ہے اس کے لیے تو زبردست عذاب ہے ۔ ( ١١ )
تو تمہارا پردہ کھول دیتا بیشک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے ہیں تمہیں میں کی ایک جماعت ہے ( ف۱۵ ) اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو ، بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے ( ف۱٦ ) ان میں ہر شخص کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا ( ف۱۷ ) اور ان میں وہ جس نے سب سے بڑا حصہ لیا ( ف۱۸ ) اس کے لیے بڑا عذاب ہے ( ف۱۹ )
جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں8 وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں ۔ 9 اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے ۔ 10 جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا ، اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا 11 اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے ۔
بیشک جن لوگوں نے ( عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا پر ) بہتان لگایا تھا ( وہ بھی ) تم ہی میں سے ایک جماعت تھی ، تم اس ( بہتان کے واقعہ ) کو اپنے حق میں برا مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ( ہوگیا ) ہے٭ ان میں سے ہر ایک کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ، اور ان میں سے جس نے اس ( بہتان ) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :8 اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا ۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے ۔ اِفک کے معنی ہیں بات کو الٹ دینا ، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا ۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں ۔ یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا ۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت اذیت میں مبتلا رہے ، میں روتی رہی ، میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے ، آخر کار ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے ۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے ۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان ( حضرت عائشہ کی والدہ ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے ۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے ۔ حضور نے فرمایا عائشہ ، مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں ۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا ۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو ، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کر دیتا ہے ۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے ۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں ۔ انہوں نے فرمایا بیٹی ، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں ۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں ۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں ، کیا کہوں ۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے ، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے ، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ مان لیں گے ۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا ۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل ( اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے ان کے بیٹے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا ۔ سورہ یوسف ، رکوع 10 میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی ۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا ۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی ۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے ۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا ۔ اتنے میں یکایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی ، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے ۔ ہم سب خاموش ہو گئے ۔ میں تو بالکل بے خوف تھی ۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے ۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش تھے ۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ ، اللہ نے تمہاری برأت نازل فرما دی ۔ اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آیتیں سنائیں ( یعنی آیت نمبر 11 سے نمبر 21 تک ) ۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو ۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا ، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری برأت نازل فرمائی ۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا ۔ ( واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے ) ۔ اس موقع پر یہ نکتۂ لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے دراصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے جسے نقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے ۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو وہ گواہی لائے ۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی ۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر 80 کوڑے برسا دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے ۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا ۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے ۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :9 روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے ۔ عبد اللہ بن ابی ۔ زید بن رفاعہ ( جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹا تھا ) ۔ مِسْطَح بن اُثاثہ ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش ۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑ گئے تھے ۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :10 مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں ، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے مفید ثابت ہو گا ۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، منافقین نے یہ شوشہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دیں جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا ، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا ۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ، دوسری طرف حضرت ابوبکر اور ان کے خاندان والوں نے ، اور تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک ، کیسے ضابطہ و متحمل ، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا ، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو ، جن پر جرم قذف ثابت تھا ، حد لگوا دی ، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا ۔ حضرت ابوبکر کا اپنا رشتہ دار ، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے ، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا ، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا ، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی ۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا ، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا ، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا ۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں ، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا ۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا ، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ، خدا کی قسم ، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی ۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا ، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں ۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا ۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا ۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ایوب کی ماں اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ؟ وہ بولیں خدا کی قسم میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی ۔ حضرت ابوایوب نے کہا تو عائشہ تم سے بدرجہا بہتر ہیں ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا ، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا ۔ پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا ، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا ۔ اس کی بدولت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، اور پیدا ہو جائیں تو ان کا بروقت تدارک کیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں ہیں ، جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں ، اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے ، ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہ کے معاملے میں سخت پریشان رہے ۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے ، کبھی ازواج مطہرات سے ، کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور کبھی حضرت اسامہ سے ۔ آخر کار حضرت عائشہ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا ۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ گچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو وہ علم حاصل ہو گیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچانے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے ۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو ۔ اول روز ہی وحی آ جاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 595 تا 598 ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :11 یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا ۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے ، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے ۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا ۔ بخاری ، طبرانی ، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول ، منقول ہے کہ : الذی تولیٰ کبرہ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پریشان دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے ۔ عورتیں بہت ہیں ۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں ۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا ۔ ان کا مقصد صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کو رفع کرنا تھا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :12 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں ، یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا ۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے ۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون ( قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں ) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا ، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا ۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہو گئے تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے ۔ ایک یہ کہ قائل ( خواہ وہ مرد ہو یا عورت ) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا ، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا ، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا ۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آ جائے اور وہ گناہ سے باز رہ جائے ۔ یہ تو اس عورت میں ہے جبکہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو ۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں ، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی ، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمسائے یا واقف کار کی بیوی بہن ، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے ۔ اس کے معنی پھر یہ ہو جاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتے ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمسائے یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جائے تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا ، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا ۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا ۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا ، جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا ۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی ، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا ، بلکہ وہ مسلمان تھا ، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا ، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہو چکا تھا ۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بات زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا ۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ کی پاکیزگی کی شہادت اس آیت سے لے کر دسویں آیت تک ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف نہ آئے ۔ ان بہتان بازوں کی ایک رٹی تھی ۔ اس لعنی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا ۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کان میں بنابناکر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں ۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں ۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا ۔ میں آپ کے ساتھ چلی ، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ میں اپنے ھودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ھودج اتار لیا جاتا ۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ھودج رکھ دیا جاتا ۔ ہم لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوے سے فارغ ہوئے ، واپس لوٹے ، مدینے کے قریب آگئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضاء حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جاکر میں نے قضاء حاجت کی ۔ پھر واپس لوٹی ، لشکر گاہ کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا ۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی ۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ھودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ۔ ھودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں ۔ تو میرے ھودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا ۔ اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی ۔ الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا ، نہ جواب دینے والا ، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی ، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے ۔ مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی ۔ اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے ، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے ۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا ۔ غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی ۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی ۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے ۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے ، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا ۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے ۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنالیا ۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی ، نہ میں نے کچھ سنا ، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا ، میں اس سے محض بےخبر تھی ۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی ۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے! اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی ۔ اب سنئے اس وقت تک گھروں میں پاخانے نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضاء حاجت کیلئے جایا کرتے تھے ۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں ۔ گھروں میں پاخانے بنانے سے عام طور پر نفرت تھی ۔ حسب عادت میں ، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی ۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں ، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو ۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا ، توبہ کرو ، تم اسے گالی دیتی ہو ، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی ۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم؟ میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو ۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں ۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا ، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہوگئی ۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی ، اس خبر نے تو نڈھال کردیا ، جوں توں کرکے گھر پہنچی ۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جاکر اور اچھی طرح معلوم تو کرلوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی ، میں یہاں آئی ، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو ، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے ۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے ۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے ، میں سر ڈال کر روتی رہتی ۔ کس کا کھانا پینا ، کس کا سونا بیٹھنا ، کہاں کی بات چیت ، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں ۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ، وحی میں دیر ہوئی ، اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کردیں یا کیا ؟ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو صاف کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے ۔ ہمارے دل ان کی عفت ، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں ۔ ہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی تنگی نہیں ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔ اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ ۔ بریرہ نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی ۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سو جاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے ، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا ۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا کون ہے؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں ۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں ، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں ، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا ۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا ۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے ۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا ۔ یہ سن کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو ، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں ۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑپڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا ۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کردیئے تھے ، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا ۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشیرف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے ۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے ۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی ۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے ۔ آپ نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر اما بعد فرما کر فرمایا کہ اے عائشہ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے ۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر ، بندہ جب گناہ کرکے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ۔ آپ اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا ۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ۔ میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ہی جواب دیجئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا ۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا ۔ میں نے کہا ، آپ سب نے ایک بات سنی ، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا ۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بےگناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے ۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے آیت ( فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون ) پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے ، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برات اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں ۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں ۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میری برات دکھا دے ۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی ۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں ۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی ، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرما دی ۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برات اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے ۔ پس آیت ( ان الذین جاء و بالافک ) سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئیں ۔ ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے ۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اس پر آیت ( ولا یاتل اولوالفضل الخ ) ، نازل ہوئی یعنی تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں ، انہیں نہ چاہئے کہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے؟ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں ۔ چنانچہ اسی وقت حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا ۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی جو آپ کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا ۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی ۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں ۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا ۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی ۔ یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے ۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں ، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا اس میں ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح تھیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح کو کوسا ، میں نے منع کیا پھر پھسلیں ، پھر کوسا ، میں نے پھر روکا ۔ پھر الجھیں ، پھر کوسا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا ۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا ۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کردیا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے ۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا! آج کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی ۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہوگیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ ۔ چنانچہ میں واپس چلی گئی ۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا ۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ، بےخبری سے سو جاتی ہیں ۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں ۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتا دے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا ۔ اسی طرح میں صدیقہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی ۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں ۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے ۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بےشرمی کی بات ہے؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد جواب دیا تھا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہر چند حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا ، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا ۔ اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا ۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں ۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی ۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش ، مسطح ، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے ۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا اور حدیث میں ہے کہ میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ کے والد اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوچکا ہے تو آپ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں ۔ آپ کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہوگیا ہوگا ؟ جب آپ کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ نے انہیں سن کر فرمایا کہ یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ کے فضل سے ۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کہتی ہو؟ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہاں ۔ اب آیتوں کا مطلب سنئے جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لئے بھلا ہے ۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی ، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے ۔ حضرت عائشہ کی برات قرآن کریم میں نازل ہوگی ، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اماں صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ام المومنین آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے پیش آتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی برات آسمان سے نازل ہوئی ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت زینب اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میرا نکاح آسمان سے اترا ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے ۔ حضرت زینب نے پوچھا یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے؟ آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل اس پر وہ بول اٹھیں کہ تم نے مومنوں کا کلمہ کہا تھا ۔ پھر فرمایا جس جس نے پاک دامن صدیقہ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا ۔ اور جس نے اس کی ابتدا اٹھائی ہے ، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں ۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے ۔ ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے حسان ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں بیان کردیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بزرگ صحابہ میں سے ہیں ۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں ۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے ۔ انہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں ۔ حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا ۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو ، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ انہیں کیوں آنے دیتی ہیں؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے تو ام المومنین نے فرمایا اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا یہ نابینا ہوگئے تھے ۔ تو فرمایا شاید یہی عذاب عظیم ہو ۔ پھر فرمایا تمہیں نہیں خبر؟ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت حضرت عائشہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ پاکدامن ، بھولی ، تمام اوچھے کاموں سے ، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں ، تو آپ نے فرمایا تم تو ایسے نہ تھے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حسان جنتی ہیں ۔ وہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے ، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا ۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے ، میں ان سب کو فنا کرکے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا ۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نیک پر فدا ہیں ۔ جب تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے ۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے؟ ام المومنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے؟ فرمایا ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں ، تلوار ان پر اٹھی ، وہ تو کہئے حضرت صفوان رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے ۔