Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِى الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ‌‌ۖ  وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا‌ ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿22﴾
تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے بلکہ معاف کردینا اور درگذر کرلینا چاہئیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا مہربان ہے ۔
و لا ياتل اولوا الفضل منكم و السعة ان يؤتوا اولي القربى و المسكين و المهجرين في سبيل الله و ليعفوا و ليصفحوا الا تحبون ان يغفر الله لكم و الله غفور رحيم
And let not those of virtue among you and wealth swear not to give [aid] to their relatives and the needy and the emigrants for the cause of Allah , and let them pardon and overlook. Would you not like that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving and Merciful.
Tum mein say jo buzurgi aur kushadgi walay hain unhen apnay qarabat daron aur miskeeno aur mohajiron ko fi sabeelillah denay say qasam na kha leni chahaye bulkay moaf ker dena aur dar-guzar ker lena chahaye. Kiya tum nahi chahtay kay Allah Taalaa tumharay qasoor moaf farma dey? Allah qasooron ko moaf farmaney wala meharban hai.
اور تم میں سے جو لوگ اہل خیر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں ، وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے ، ( ١٣ ) اور انہیں چاہیے کہ معافی اور درگذر سے کام لیں ۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے ( ف۳٤ ) اور گنجائش والے ہیں ( ف۳۵ ) قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزریں ، کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( ف۳٦ )
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے ۔ انھیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے ۔ 20
اور تم میں سے ( دینی ) بزرگی والے اور ( دنیوی ) کشائش والے ( اب ) اس بات کی قَسم نہ کھائیں کہ وہ ( اس بہتان کے جرم میں شریک ) رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو ( مالی امداد نہ ) دیں گے انہیں چاہئے کہ ( ان کا قصور ) معاف کر دیں اور ( ان کی غلطی سے ) درگزر کریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے ، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :20 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابوبکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے ، کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابوبکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انا نحب ان تغفرلنا یا ربنا ، واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے ۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا ۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں ۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے ، اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی ۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فوأی غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہ ۔ ( جو شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے ) ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم فرما چکا ہے ( البقرہ ، آیت 225 المائدہ ، آیت 89 ) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے ۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نامناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے ۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے ، چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہ کر دیتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فرّی غیرھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہ ( جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے ، اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز ۔ ایک چیز کا کفارہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 46 )
دولت مند افراد سے خطاب تم میں سے جو کشادہ روزی والے ، صاحب مقدرت ہیں ۔ صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ اپنے قرابت داروں ، مسکینوں ، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں ۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لئے فرمایا کہ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کر دینا چاہئے ۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کر لینا چاہئے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم وکرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے ۔ یہ آیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے ۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دی ، ام المومنین بری ہوگئیں ، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے ، مومنوں کی توبہ قبول ہوگئی ، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق کو حضرت مسطح کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے ۔ حضرت صدیق ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے ، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی ۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت مشہور تھی ۔ کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ کا حسن سلوک عام تھا ۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑے کہ کیا تم بخشش الہی کے طالب نہیں ہو ؟ آپ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے اور اسی وقت سے مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ، جاری کر دیا ۔ گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہوجائیں ۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کر لیا کریں ۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا ۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔