Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ‌ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ‌ۚ اُولٰٓٮِٕكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَ‌ؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿26﴾
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس ( بہتان باز ) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی ۔
الخبيثت للخبيثين و الخبيثون للخبيثت و الطيبت للطيبين و الطيبون للطيبت اولىك مبرءون مما يقولون لهم مغفرة و رزق كريم
Evil words are for evil men, and evil men are [subjected] to evil words. And good words are for good men, and good men are [an object] of good words. Those [good people] are declared innocent of what the slanderers say. For them is forgiveness and noble provision.
Khabees aurten khabees mardon kay laeeq hain aur khabees mard khabees aurton kay laeeq hain aur pak aurten pak mardon kay laqeeq hain aur pak mard pak aurton kay laeeq hain. Aisay pak logon kay mutalliq jo kuch bakwas ( bohtan baaz ) ker rahey hain woh inn say bilkul bari hain inn kay liye bakhsish hai aur izzat wali rozi.
گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں ، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں ، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق ( ١٤ ) ۔ یہ ( پاکباز مرد اور عورتیں ) ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔ ان ( پاکبازوں ) کے حصے میں تو مغفرت ہے اور باعزت رزق ۔
( ف٤۳ ) گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے ( ف٤٤ ) اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے وہ ( ف٤۵ ) پاک ہیں ان باتوں سے جو یہ ( ف٤٦ ) کہہ رہے ہیں ، ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے ( ف٤۷ )
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ۔ ان کا دامن پاک ہے ان باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں ، 22 ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم ۔ ؏ 3
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ( مخصوص ) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لئے ہیں ، اور ( اسی طرح ) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ( مخصوص ) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں ( سو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لئے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہوگی ) ، یہ ( پاکیزہ لوگ ) ان ( تہمتوں ) سے کلیتًا بری ہیں جو یہ ( بدزبان ) لوگ کہہ رہے ہیں ، ان کے لئے ( تو ) بخشائش اور عزت و بزرگی والی عطا ( مقدر ہو چکی ) ہے ( تم ان کی شان میں زبان درازی کر کے کیوں اپنا منہ کالا اور اپنی آخرت تباہ و برباد کرتے ہو )
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :22 اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے ، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں ۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو ۔ اس کے تو اطوار ، عادات ، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں ۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو ، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو ۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو ، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو ۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار ، گفتار ، انداز ، اطوار ، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت سے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے ، کیا الزام لگایا جا رہا ہے ، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے ، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے ۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں ( یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں ۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کے ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں ۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرداز لوگ کر رہے ہیں ۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے ۔ لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے ۔
بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے ۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی ۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے ۔